ویسے تو بلی سات اکتوبر کے فوراً بعد ہی تھیلے سے باہر آ گئی تھی۔ مگر اب اس نے اپنے نوکیلے دانت اور پنجے بھی پوری طرح گاڑ دیے ہیں۔ پہلا نقبہ انیس سو اڑتالیس سے انیس سو پچاس تک جاری رہا جب ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کے ہمسایہ ممالک میں دھکیل دیا گیا اور ان کی تمام املاک کو خالی قرار دے کر قبضہ کرکے اسرائیل تعمیر ہوا۔
دوسرا نقبہ جون انیس سو سڑسٹھ سے شروع ہوا اور پچھلے ستاون برس سے مسلسل ہے۔ لاکھوں مزید فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاست کے جغرافیے سے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں دھکیل دیا گیا اور انھیں ایسے خصوصی فوجی و فوجداری قوانین کے جال میں جکڑا گیا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ ہمیشہ کے لیے کوچ کر جائیں اور پھر انھیں غیر ملکی قرار دے کر واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔
اب سات اکتوبر کے بعد سے تیسرا نقبہ شروع ہے۔ حماس کی مسلح کارروائی سے بہت پہلے ہی اسرائیلی وزارتِ داخلہ و عسکری تحقیق کے تھنک ٹینکس نے ایک بلیو پرنٹ تیار کیا کہ کس طرح غزہ کو خالی کروا کے وہاں غربِ اردن کی طرز پر یہودی بستیاں تعمیر کی جائیں۔
دو ہزار پانچ میں فلسطینی اتھارٹی سے ایک سمجھوتے کے تحت غزہ میں انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد سے آباد ساڑھے پانچ ہزار یہودی آباد کاروں کو اسرائیلی ریاست نے غربِ اردن منتقل کرکے پوری غزہ پٹی کو خاردار تاروں سے محصور کرکے وہاں آباد بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ایک کھلی جیل کا قیدی بنا دیا اور پھر دو ہزار سات کے انتخابات میں غزہ میں حماس کی فتح کے بعد جب وہاں فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ختم ہوا تو غزہ کو مستقل اقتصادی ناکہ بندی میں جکڑ دیا گیا جہاں سوئی بھی اسرائیلی اجازت نامے کے بغیر نہیں پہنچائی جا سکتی تھی۔
تب اہلِ غزہ نے زندہ رہنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت زیرِ زمین سرنگوں کا جال بچھایا۔ ایسی بیس سرنگوں کے دہانے مصر سے متصل غزہ کی سرحد پر کھلتے تھے جہاں سے مصری حکام کی ملی بھگت سے روزمرہ استعمال کی اشیا اسمگل کرکے غزہ پہنچائی جاتی تھیں۔ مگر سات اکتوبر کے بعد سے یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔
اسرائیل کی طرح مصر نے بھی غزہ سے ملنے والی سرحد سیل کر دی اور پچھلے چار ماہ سے اہلِ غزہ بجلی، پانی، پٹرول اور غذا کے بغیر زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا اور دیگر بین الاقوامی مددگار ایجنسیوں کی مدد سے دورانِ جنگ جو تھوڑی بہت انسانی امداد غزہ پہنچائی گئی وہ بھی ختم ہوگئی۔
اگلا مرحلہ آبادی سے پوری پٹی خالی کروانے اور جو رہ جائیں انھیں قتل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت سات اکتوبر کے فوراً بعد شمالی غزہ اور غزہ سٹی میں رہنے والوں کو اسرائیل کی جانب سے علاقہ خالی کرکے جنوبی غزہ منتقل ہونے کا حکم ملا اور اعلان کیا گیا کہ جنوبی غزہ ایک محفوظ علاقہ ہے۔ کیونکہ اسرائیل عام شہریوں سے شمالی غزہ خالی کروا کے حماس کے " دہشت گردوں" کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھرپور فوجی آپریشن شروع کرنے والا ہے۔ فلسطینیوں کو علاقہ خالی کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی۔
جب شمالی غزہ میں آپریشن مکمل ہوا تو اسرائیل نے اعلان کیا کہ اب وہ غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقے میں فوجی آپریشن شررع کرے گا کیونکہ حماس کے مسلح جنگجو اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ شمال سے جنوب منتقل ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جنوبی غزہ بالخصوصِ خان یونس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور وہاں موجود فلسطینی شہریوں سے کہا گیا کہ اب وہ مصری سرحد سے متصل آخری شہر رفاہ منتقل ہو جائیں جو کہ ایک محفوظ علاقہ ہے۔ جب کہ شمالی وسطی اور جنوبی غزہ پر مسلسل بمباری اور گولہ باری جاری رہی۔ یہ علاقے انسانوں کے رہنے کے ناقابل کھنڈرات میں تبدیل کر دیے گئے۔
رفاہ میں عملاً غزہ کے تین چوتھائی شہری مرغیوں کے ایک بڑے سے دڑبے کی طرح جمع کر دیے گئے ہیں۔ ان کی تعداد لگ بھگ چودہ لاکھ ہے۔ رفاہ میں اس وقت فی مربع کلو میٹر سولہ ہزار انسان رہ رہے ہیں اور یہ دنیا کا سب سے گنجان قصبہ بن چکا ہے۔ پچھلے ہفتے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اب وہ جنگ کے آخری مرحلے میں رفاہ پر فوج کشی کرے گی۔ کیونکہ حماس کے جنگجو بھی وہاں منتقل ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے اہلکاروں سے لے کے اسرائیل کے مغربی پشت پناہ امریکا، جرمنی اور فرانس سمیت ہر ایک نے خبردار کیا ہے کہ رفاہ پر فوج کشی سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ مگر امریکی پشت پناہی سے سرشار نیتن یاہونے سینہ ٹھونک کے کہا کہ اسرائیل رفاہ پر ضرور حملہ کرے گا۔ اس سے پہلے رفاہ میں جمع شہریوں کو محفوظ راہ داری دی جائے گی۔
اب جب کہ پورا غزہ غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ فلسطینی کہاں جائیں؟ یہ راہ داری انھیں سوائے مصر کے صحراِ سینا میں اجتماعی طور پر دھکیلنے کے اور کہاں لے جائے گی اور جو نہیں جائیں گے وہ اسرائیلی فوج کشی میں مارے جائیں گے۔ مگر منصوبہ یہی ہے کہ یا تو یہاں سے نکلو یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
اسرائیل کو اپنے منصوبے کی کامیابی کا اس قدر یقین ہے کہ دو ہفتے قبل تل ابیب میں عماراتی ماہرین اور بلڈرز کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں لگ بھگ دس مرکزی وزرا نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے کے بعد اسرائیلی آبادکاری کے تعمیراتی منصوبوں کے نقشے پیش کیے گئے۔
عملاً رفاہ کے خلاف فوج کشی شروع ہو چکی ہے۔ مصر کسی قیمت پر اپنی سرحد کھولنے پر تیار نہیں۔ بلکہ وہ اب دیوار تعمیر کر رہا ہے۔ جب کہ غربِ اردن میں یہودی آباد کاروں کی مسلسل دہشت گردی اور فلسطینی اراضی پر جبری قبضے کی تازہ مہم اور نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی دھڑا دھڑ منظوری دی جا رہی ہے اور کئی بستیوں کا تعمیراتی کام بھی شروع ہو چکا ہے۔
اسرائیل موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم سے بھی زیادہ سے زیادہ فرزندانِ زمین کو اردن کی جانب دھکیلنے کے حالات بنا رہا ہے مگر اردن کی حکومت نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ تیسری بار فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد قبول کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں اور اگر فلسطینیوں کو کھدیڑنے کی غنڈہ گردی جاری رہی تو اردن اسرائیل سے سفارتی تعلقات سمیت ہر طرح کا تعاون ختم کر دے گا۔
خدشہ ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کو رفاہ میں جمع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلسل بمباری اور گولہ باری سے تنگ آ کے جان بچانے کی خاطر وہ رفاہ کراسنگ توڑتے ہوئے صحراِ سینا میں چلے جائیں اور پھر نسل در نسل کیمپوں میں رہیں۔
اسرائیلی فوج سے کہا گیا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے اس کے لیے صرف ایک ماہ کی مہلت ہے۔ پھر مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان شروع ہو جائے گا۔
اگر تب بھی فوج کشی جاری رہی تو پھر اسرائیل کے اردگرد واقع ممالک کی حکومتیں تو کوئی ردِ عمل نہیں دیں گی مگر ان کی رعایا پھٹ سکتی ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس سے بچنے کے لیے عرب بالخصوص خلیجی ممالک محض خانہ پری کے لیے اسرائیلی نسل کش منصوبے کی " شدید مذمت " کر رہے ہیں۔ البتہ غزہ کے باشندوں تک روٹی پانی دوا اور پناہ کی فراہمی عرب اور مسلمان ممالک کی ترجیح فہرست میں سب سے نیچے ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینیوں کے مسئلے کا " مکمل حتمی حل " نکالنے کے اسرائیلی منصوبے کو بہت سی بااثر عرب حکومتوں کی بھی خاموش تائید حاصل ہے۔