آج کا دن خاص ہے۔ پچاس برس پہلے (بیس جولائی انیس سو انہتر ) پہلا انسان ( نیل آرم اسٹرانگ ) چاند پر اترا۔ اس کا پہلا جملہ تھا " ایک آدمی کا چھوٹا سا قدم بنی نوعِ انسان کی بہت بڑی چھلانگ ہے"۔ بیس منٹ بعد اس کا ساتھی بز ایلڈرن نیچے اترا۔ تیسرا ساتھی مائیکل کولنز خلائی گاڑی میں ہی رہا تاکہ گاڑی کنٹرول میں رہ سکے۔ اس ٹیم نے بیس گھنٹے چاند پر گذارے اور دو گھنٹے سطح پر چہل قدمی کر کے ارضِ قمر کے نمونے جمع کیے۔ سولہ جولائی کو لانچ ہونے والا یہ مشن چوبیس جولائی کو آٹھ دن کا دوطرفہ سفر مکمل کر کے بحرالکاہل میں کامیاب لینڈنگ پر ختم ہوا۔
انسان کے چاند پر پہلے قدم کے منظر کو کرہِ ارض پر پینسٹھ کروڑ افراد نے ٹی وی اسکرین پر براہِ راست دیکھا۔ گزشتہ ہفتے اس کارنامے کی گولڈن جوبلی تقریبات کے آغاز پر امریکا کے نائب صدر مائک پنس نے کہا کہ اب سے تیس صدیوں بعد اگر بیسویں صدی یاد رہے گی تو شائد اس لیے کہ اس صدی میں انسان نے پہلی بار کرہِ ارض سے باہر کسی جگہ قدم رکھا۔ کمانڈر نیل آرم اسٹرانگ کا دو ہزار بارہ میں انتقال ہوگیا۔ البتہ نواسی برس کے بز ایلڈرن اور اٹھاسی سالہ مائیکل کولنز مشن کی گولڈن جوبلی تقریبات کے مرکزی کردار ہیں۔
مگر نیل آرم اسٹرانگ کا چاند پر پہلا قدم شائد سب سے مہنگا انسانی قدم بھی ہے۔ اس کی نوبت آنے تک پچیس ارب امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔ چار لاکھ کے قریب انسانوں نے اس لمحے کو ممکن بنانے کے لیے کام کیا۔
اگرچہ اس لمحے زمین پر قائم مشن کنٹرول میں سکتے کے عالم میں موجود بیسیوں سائنسدانوں، ٹیکنیشنز اور آپریٹرز کے درمیان صرف ایک خاتون انجینیرہوانا مورگن موجود تھی۔ مگر زمین تا قمر اس انجانے سفر کے ایک ایک لمحے کی شماریات و حساب کتاب کسی سپر کمپیوٹر نے نہیں بلکہ کیتھرین جانسن سمیت ریاضی و خلائی سائنس اور فزکس کی ماہر بیسیوں سفید و سیاہ فام خواتین نے کاغذ اور ٹائپ رائٹر پر کی۔ ان میں سے اکثر (میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف سائنس و ٹیکنالوجی ) ایم آئی ٹی کی گریجویٹ تھیں۔
یہ مشن کششِ ثقل کو توڑے بغیر ممکن نہ تھا۔ اور اس کشش کو توڑنے کے لیے جو طاقت درکار تھی اس کا محرک سیٹرن وی نامی وہ خلائی راکٹ تھا۔ اس سے زیادہ طاقتور راکٹ آج تک نہ بن پایا۔ تین سو تریسٹھ فٹ بلند اٹھائیس سو ٹن وزنی سیٹرن وی کا پچاسی فیصد وزن صرف ایندھن تھا۔ یہ ایندھن بیس ٹن فی سیکنڈ کے حساب سے خرچ ہوا اور یوں سیٹرن وی راکٹ نے اپالو گیارہ کو گیارہ منٹ کے اندر خلا میں پہنچا دیا۔ اس کے بعد چار دن کا سفر خلائی جہاز نے اپنے زور پر حالتِ بے وزنی میں طے کیا۔
طاقتور ترین سیٹرن وی راکٹ جرمن نژاد امریکی وینہر وان براؤن نے ڈیزائن کیا۔ آپ سابق نازی تھے اور ہٹلر کے وی راکٹ پروگرام سے بھی وابستہ رہ چکے تھے۔ چونکہ سائنس و ٹیکنالوجی کا میدان غیر سیاسی ہوتا ہے اس لیے کسی کو سیٹرن وی راکٹ کے معمار کے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ( اسرائیل کو بھی نہیں)۔ ویسے بھی ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
اگر امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی رقابت نہ ہوتی تو کیا انسان چاند پر اترتا؟ ضرور اترتا مگر شائد انیس سو انہتر کے بہت بعد۔ مسابقت ہی ترقی کو پر لگاتی ہے۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں دو ایٹم بم استعمال کر کے نہ صرف سب سے بڑی عسکری قوت ہونے کا دبدبہ کما لیا تھا بلکہ وہ دنیا کو اپنے صرفے کے لیے محفوظ رکھنے کی خاطر کیمونزم سے بچانے والی قوتوں کا بھی سرخیل تھا۔ ایسا سرخیل جسے ہر مادی میدان میں سوویت یونین سے کوسوں آگے رہنا چاہیے۔
چنانچہ جب انیس سو ستاون میں روس نے سپوتنک کے نام سے پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا تو منطق کا تقاضا تھا کہ امریکا کے سینے پر سانپ لوٹ جائیں۔ یوں اگلے برس ہی خلائی ادارے ناسا کی پیدائش ہوئی۔ بارہ اپریل انیس سو اکسٹھ کو سوویت یونین خلائی دوڑ میں ایک قدم اور آگے بڑھ گیا جب کیپٹن یوری گگارئین نے خلا میں پہنچ کر زمین کے گرد ایک سو آٹھ منٹ تک چکر لگائے۔ اگلے ماہ امریکی خلاباز ایلن شیفرڈ کو خلا میں بھیجا گیا مگر وہ صرف پندرہ منٹ ہی زمین کے مدار میں رہ پائے۔ انیس سو اکسٹھ میں ہی اپالو خلائی پروگرام بھی شروع کیا گیا۔
انیس سو باسٹھ میں صدر کینیڈی نے اعلان کیا کہ یہ عشرہ ختم ہونے سے پہلے پہلے پہلا امریکا چاند پر اتر جائے گا۔ انھوں نے سوویت یونین کو بھی اس منصوبے میں شراکت داری کی دعوت دی مگر خروشچیف نے اس پیش کش کو گھاس ڈالنے کے بجائے اگلے ہی برس سولہ جون انیس سو تریسٹھ کو پہلی خاتون ویلنتینا تریشکووا کو خلا میں بھیج کر ایک اور چیلنج دے دیا۔ ( دوسری سوویت خاتون سویتلانا سوئتسکایا انیس سو بیاسی میں خلا میں گئیں )۔ مگر پہلی امریکی خلاباز خاتون سیلی رائیڈ کو انیس سو تراسی میں چیلنجر شٹل کے ذریعے خلا میں جانے کا موقع ملا (سوویت یونین بیس برس پہلے ہی یہ کام کر چکا تھا )۔
اٹھارہ مارچ انیس سو پینسٹھ کو سوویت خلاباز بیلاتیف لینوف پہلے انسان بن گئے جنھوں نے خلا میں چہل قدمی کی۔ اس کا جواب امریکا نے تین ماہ بعد تین جون کو دیا جب میکڈووٹ وائٹ نے چار دن خلا میں گذارے اور اکیس منٹ چہل قدمی کی۔ انیس سو پینسٹھ میں ہی سوویت یونین نے چاند کی سطح پر بغیر انسان کے پہلا خلائی جہاز اتارنے کی ناکام کوشش کی۔
کامیابی جان لیے بنا کہاں نصیب ہوتی ہے؟ نیل آرم اسٹرانگ کے چاند پر پڑنے والے پہلے قدم سے پہلے اور بعد میں بھی کئی حادثات ہوئے۔ ستائیس جنوری انیس سو سڑسٹھ کو اپالو ون کے ایک تربیتی مشن کے دوران کمانڈ موڈیول میں آگ لگنے سے تین امریکی خلا باز ہلاک ہوگئے۔ اسی برس تئیس اپریل کو سوویت خلاباز کومی روف خلائی جہاز سویوز ون کی کریش لینڈنگ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انیس سو اکہتر میں اپالو تیرہ کا چاند مشن بیچ سفر میں آتشزدگی کے سبب منسوخ کرنا پڑا مگر تینوں امریکی خلاباز زندہ سلامت زمین پر اتر گئے۔ البتہ سوویت خلائی مشن اتنا خوش قسمت ثابت نہ ہو سکا۔ چھ جون انیس سو اکہتر کو جب سویوز گیارہ چوبیس دن کے کامیاب مشن کے بعد لینڈ کیا تو اس کے اندر موجود تینوں خلا باز مردہ پائے گئے (انیس سو چھیاسی میں امریکی خلائی شٹل چیلنجر ٹیک آف کرتے ہی آگ کا گولہ بن گئی اور عملہ آنکھوں کے سامنے ختم ہو گیا۔ دو ہزار تین میں خلائی شٹل کولمبیا کے ساتھ بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔
اب تک کل چھ خلائی مشن چاند پر اترے ہیں۔ اپالوسترہ آخری انسانی مشن تھا جو دسمبر انیس سو بہتر میں چاند پر اترا۔ اس کے بعد خلائی اسٹیشنوں کا دور شروع ہوا۔ امریکی اسکائی لیب انیس سو تہتر چوہتر میں خلا میں چکر لگاتی رہی اور پھر مدار سے بھٹک کر تباہ ہوگئی۔ روسی خلائی اسٹیشن میر انیس سو پچانوے تا اٹھانوے خلا میں متحرک رہا۔ اور اب انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن خلا میں کئی برس سے موجود ہے جہاں مختلف ممالک کے ماہرین طویل عرصہ گذارتے ہیں۔
اب خلا میں جانا یا کسی سیارے تک پہنچنا کوئی خبر نہیں۔ اگلا انسان کوئی چینی ہوگا جو چاند پر اترے گا۔ دو ہزار ستائیس تک چاند کی سیاحت کا دھندہ شروع ہو جائے گا۔ پہلے صرف سوویت یونین اور امریکا تھے۔ آج چین کے علاوہ جاپان، بھارت، اسرائیل، یورپین اسپیس ایجنسی بھی متحرک ہیں اور کئی دیگر ممالک کے خلا باز بھی پرائے راکٹوں میں اوپر کی تجرباتی سیر کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان کا خلائی ادارہ اسپارکو بھی انیس سو اکسٹھ سے قائم ہے۔ بھلے وقتوں میں اسپارکو کا ناسا سے بھی تربیتی اشتراک تھا مگر اب تک اتنی ترقی ہوئی ہے کہ خلائی مخلوق تو ہے پر اسپارکو کا پتہ نہیں۔
چاند سے ہماری قومی رشتے داری بھی ہے۔ نیشنل میوزیم کراچی کے تہہ خانے میں چاند کا ایک چٹانی نمونہ اور اس کے ساتھ وہ چھوٹا سا دھاتی پاکستانی پرچم بھی کہیں پڑا ہے جو اپالو سترہ دیگر ممالک کے پرچموں کے ساتھ چاند پر لے گیا تھا۔ جب عالمی دورے پر نکلے اپالو سترہ کے تین خلاباز یوجین سیرنن، رونالڈ ایونز اور ہیریسن شمٹ چوبیس جولائی انیس سو تہتر کو دو دن کے لیے کراچی آئے تو ان کا خیرمقدم گورنر سندھ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور قائمقام وزیرِ اعلی قائم علی شاہ نے کیا۔ ان خلابازوں نے نہ صرف کراچی یونیورسٹی میں وقت گذارا بلکہ صدر بھٹو سے بھی ملاقات کی اور انھیں قمری چٹان کا نمونہ اور پاکستانی پرچم پیش کیا۔
( مگر جانے کیوں آج تک بہت سوں کو غلط فہمی ہے کہ اپالو گیارہ کے نیل آرم اسٹرانگ، بز ایلڈرن اور مائیکل کولنز نے کراچی کا دورہ کیا اور صدر کے علاقے میں کھلی کار میں جب وہ نکلے تو دو رویہ کھڑے لوگوں نے والہانہ استقبال کیا )۔