چین سامان تو بھیج ہی رہا ہے۔ ساتھ ساتھ پاکستانی فیصلہ سازوں کی تیاری اور ذہن کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں اس نے طبی ماہرین کی نو رکنی ٹیم بھی بھیجی۔ یہ ٹیم انتظام و صحت کے وفاقی و صوبائی عمل داروں سے ملی اور چند مفید مشورے بھی دیے نیز وہ مجربات بھی بتائے جن کی مدد سے چین اس وائرس کو فی الحال پسپا کرنے میں کامیاب ہوا۔
یعنی جزوی کے بجائے مکمل لاک ڈاؤن۔ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ سماجی دوری ( سوشل ڈسیٹینسنگ ) بھی خود بخود ہو جائے گی۔ لاک ڈاؤن توڑنے والوں کے خلاف فوری کارروائی تاکہ دوسرے محتاط رہیں۔ لاک ڈاؤن صرف کورونا کے پھیلاؤ کو سست کرے گا۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹنگ کی جائے اور پازیٹو افراد کو نیگیٹو افراد سے علیحدہ کر کے ایسے قرنطینہ مراکز میں منتقل کیا جائے جہاں ان کی تسلی بخش دیکھ بھال ہو سکے۔ جب کہ لاک ڈاؤن آبادی کو دہلیز پر بنیادی اشیا پہنچائی جائیں اور ایمرجنسی کی صورت میں ان شہریوں کی مدد کے لیے تمام ادارے ہمہ وقت مستعد رہیں۔ یہی ایک طریقہ ہے اس موذی سے لڑنے کا جب تک کوئی ویکسین نہیں بن جاتی۔
چینیوں نے تو اپنے بھول پن میں یہ مخلصانہ مشورے دے دیے کیونکہ ان کے پاس نہ صرف طے شدہ پالیسی پر من و عن عمل کروانے کا اوپر سے نیچے تک منظم ڈھانچہ موجود ہے بلکہ اس پالیسی کے نفاذ کے لیے مطلوبہ وسائل اور کام کو صرف کام سمجھنے والی تربیت یافتہ افرادی قوت اور ہدف کو وقت سے پہلے پورا کر کے سبقت لے جانے والا جذبہ بھی وافر ہے۔ مگر ہم ان مشوروں پر کیسے عمل کریں۔ ہم تو ان کا اچار بھی نہیں ڈال سکتے۔
چین میں طاقت اور اختیار کا ایک ہی سرچشمہ ہے۔ مگر یہاں وبا ہو نہ ہو یہی پتہ نہیں چلتا کہ اصل اختیارات کتنے اداروں یا لوگوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ چین میں تو حکمرانوں کی شائد دو ہی آنکھیں ہوں۔ مگر ہمارے ہاں تو جس کے پاس بھی ذرا سا اختیار ہے اسے کم ازکم چار آنکھوں کی ضرورت ہے۔ ان چار میں دو تو وہ ہیں جو ہر ایک کو قدرت نے ودیعت کی ہیں۔ ایک آنکھ پشت پر ہو تاکہ پیٹھ پیچھے مہربانوں پر نظر رکھی جا سکے اور ایک آنکھ ماتھے پر جو بوقت ضرورت استعمال ہو سکے۔
چین میں اگر کوئی افلاطون یا سقراط ہے بھی تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو۔ مگر ہمارے ہاں تو صدر سے نائب قاصد تک ہر کوئی سقراط کا باپ ہے۔ چین میں اگر بنیادی راگ سات ہیں تو ہمارے ہاں سات ہزار اور ان سات ہزار راگوں کو اپنے اپنے ڈھنگ سے الاپنے والوں کی تعداد کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔
مثلاً عالمی ادارہِ صحت اور چین سمیت کورونا سے نبردآزما متعدد ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شدید متاثرین کو فوراً گھروں سے نکال کر کسی ایسی جگہ پر آئسولیشن میں رکھا جائے جہاں طبی عملہ ان پر نظر رکھے۔ انھیں صرف گھروں کے قرنطینہ میں رہنے کے وعدے پر نہ چھوڑا جائے۔ چنانچہ ارجنٹینا سے لے کر جنوبی کوریا تک اس مقصد کے لیے بڑے بڑی اسٹیڈیمز کو بھی قرنطینہ میں تبدیل کر دیا گیا۔
ہمارے ہاں بھی حکومتِ سندھ نے کورونا متاثرین کے لیے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں کئی ہفتے پہلے دس ہزار بستروں پر مشتمل عارضی طبی مرکز بنانے کا اعلان کیا۔ اس کا تصویری افتتاح بھی ہو گیا۔ لاہور میں حکومتِ پنجاب نے ایک ہزار بستروں پر مشتمل عارضی علاج گاہ تیار کرنے کی نوید سنائی۔ وزیرِ ریلوے نے اعلان کیا کہ چونکہ ٹرین سروس بند ہے لہذا خالی بوگیوں کو قرنطینہ مرکز کے طور پر تیار کر لیا گیا ہے۔
مگر آج کی تاریخ تک ان میں سے کسی ایک سہولت کو عملاً پازیٹو مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکا۔ صوبائی حکومتیں ان سہولتوں کا استعمال چاہتی ہیں مگر وفاقی سطح پر جو پالیسی گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہیں ان میں متاثرہ افراد پر بھروسہ کیا گیا ہے کہ وہ گھروں میں رہتے ہوئے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے تحفظ کے لیے رضاکارانہ طور پر قرنطینہ کے اصولوں پر عمل کریں اور صرف مرض کی شدت کی صورت میں ہی اسپتالوں میں داخل کیے جائیں کیونکہ اسپتالوں پر پہلے ہی بوجھ ہے اور وسائل ناکافی ہیں۔
اس کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ کراچی کی ایک کچی آبادی میں ایک ہی خاندان کے سات کے سات افراد کورونا پازیٹو نکلے۔ یہ وہ ٹائم بم ہے جو کچی آبادیوں کی گنجان گلیوں میں بس پھٹا ہی چاہتا ہے۔
سب سے زیادہ ابتدائی کیسز ایران سے آنے والے زائرین اور تبلیغی جماعت کے ارکان میں آئے مگر انھیں نسبتاً زیادہ سہولت اور مناسب دیکھ بھال کے لیے تیار شدہ مراکز میں منتقل کرنے کے بجائے ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے انھی کے مراکز یا افراتفری میں قرار دیے گئے قرنطینہ میں ڈال دیا گیا۔ یعنی تفتان کی بدانتظامی کے نتائج سے کچھ سیکھنے کے بجائے ان نتائج کو بیسیوں نئے مراکز پر لاگو کر دیا گیا۔
پڑھے لکھے متمول لوگوں کے بارے میں فرض کر لیا گیا کہ یہ باشعور لوگ نہ صرف خود کو بلکہ اردگرد کے لوگوں کو بچانے کے لیے بھی احتیاط کریں گے چنانچہ ان میں سے جس جس نے بھی کہا کہ فکر نہ کیجیے میں اپنے آٹھ بیڈ رومز کے بنگلے میں جاتے ہی خود کو آئسولیٹ کر لوں گا۔ اس کی بات پر یقین کر لیا گیا۔
صوبائی ڈّزآسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اہلکاروں سے بات چیت کے بعد بی بی سی اردو پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق متمولین سے اس نرمی اور مروت کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور میں اس وقت تک جتنے کورونا پازیٹو سامنے آئے ہیں ان میں سے لگ بھگ آدھے بحریہ، ڈیفنس، ماڈل ٹاؤن، گلبرگ یا آس پاس کے علاقوں میں پائے گئے ہیں۔ پولیس باہر لاک ڈاؤن پر عمل کروا رہی ہے اور اندر پارٹیاں اور اجتماعی کھانے چل رہے ہیں۔ کس مائی کے لال پولیس والے میں جرات ہے کہ کسی بنگلے کی بیل بجا کر کہہ سکے کہ صاحب سے کہو کہ وہ پورے علاقے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
مارکیٹنگ سروے کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی ایبسوس نے پاکستان میں کورونا وائرس کی آگہی ناپنے کے لیے فروری اور مارچ کے دوران چاروں صوبوں میں جو عوامی سروے کیا اس میں شہری اور دیہی علاقوں میں ایک ہزار افراد سے انٹرویوز کیے گئے اور جو نتائج اخذ کیے گئے ان کے مطابق ستاسی فیصد لوگ کورونا کے خطرے سے آگاہ ہیں۔ لگ بھگ نوے فیصد لوگ گھر سے جاتے اور آتے وقت ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اٹھاسی فیصد ماسک کی افادیت سے آگاہ ہیں، چھیاسٹھ فیصد سمجھتے ہیں کہ فی الحال مصافحہ اور معانقہ مناسب نہیں، سینتالیس فیصد قائل ہیں کہ پرہجوم جگہوں سے پرہیز بہترہے۔ تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ نئی ٹائیگر فورس بنانے کے بجائے پہلے سے موجود تنظیموں اور بلدیاتی ڈھانچے سے لوگوں کی مدد کا کام لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے اور چھپن فیصد کا خیال ہے کہ چونکہ ہر محلے میں مساجد کا نیٹ ورک ہے لہذا ان مساجد کو آگہی اور فلاحی و ریلیف کے مراکز کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام اتنے بے خبر نہیں جتنا ہم ڈرائنگ رومیے دانشور سمجھتے ہیں مگر بھلا ہو ہمارے کچھ اینکرز، سوشل میڈیائی پنڈت اور تھڑے سے شایع ہونے والا سینہ گزٹ کا جس نے کورونا سے متعلق عوام کی درست تعلیم کے بجائے اپنی افلاطونیوں سے اذہان الجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مثلاً اسی سروے کے مطابق سڑسٹھ فیصد کا خیال ہے کہ باجماعت نماز سے وائرس نہیں پھیل سکتا۔ اڑتالیس فیصدسمجھتے ہیں کہ مصافحے سے کورونا نہیں پھیلتا۔ انتالیس فیصد سمجھتے ہیں صرف ہاتھ دھونا کافی ہے، اٹھاون فیصد کا خیال ہے موسمی درجہِ حرارت میں اضافے سے کورونا ختم ہو جاتاہے۔ پچاس فیصد سمجھتے ہیں کہ ہمارا جسمانی دفاعی نظام باقی قوموں سے زیادہ مضبوط ہے لہذا ہمیں کورونا سے اتنا زیادہ خطرہ نہیں۔ پینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا صرف پچپن برس سے اوپر کے لوگوں کے لیے خطرناک ہے۔
انتالیس فیصد کا خیال ہے کہ بچے کورونا سے متاثر نہیں ہوتے۔ سینتیس فیصد سمجھتے ہیں کہ جسے کورونا ہو جائے وہ زندہ نہیں بچتا۔ تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ پیاز، لہسن، کلونجی اور تل وغیرہ استعمال کر کے کورونا سے بچا جا سکتا ہے۔ تیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا سے گھریلو ملازم اور صفائی کرنے والا عملہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ تینتالیس فیصد کا خیال ہے کہ کورونا ایک خاص فرقے اور عقیدے والوں میں زیادہ پھیل رہا ہے اور تینتالیس فیصد سمجھتے ہیں کہ کورونا کا پھیلاؤ امریکا اور اسرائیل کی سازش ہے۔
خون تھوکے، کبھی روئے کبھی تقریر کرے
ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے ( احمد نوید )
چینی کی طبی ماہرین کی ٹیم اب واپس جا چکی ہے۔ جانے وہ کیا رپورٹ دے گی؟