یہ وائرس کا حملہ نہیں تیسری عالمی جنگ ہے، جس میں ایسے دشمن سے پالا پڑا ہے جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے آیا ہے، کب تک رہے گا اور فاتح ہوگا کہ پسپا۔ ایسے میں ذرا سی بھی کامن سینس والا شخص توقع رکھتا ہے کہ میڈیا ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں ایک پروفیشنل اور تمام متعلقہ اداروں کی رابطہ کاری میں ہاتھ بٹانے والا سپاہی ثابت ہوگا۔ مگر نہایت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت یہی معلوم نہیں ہو رہا کہ سوشل میڈیا زیادہ غیرسنجیدہ ہے کہ روایتی میڈیا۔
اس وقت میڈیا کا سب سے بڑا منصب یہ ہے کہ وہ افواہوں اور بے بنیاد طبی و بقراطی بکواس کا پردہ فاش کرے، ہر خبر کو ڈبل چیک کرے، سورس کتنا ذمہ دار یا غیر ذمہ دار ہے اس کا پتہ چلائے اور پھر پروفیشنل ازم کی چھلنی سے گذار کر اطلاعات فراہم کرے۔ مگر زندگی کی بے یقینی و موت و زندگی کے مابین جھولنے والے کرہِ ارض پر شائد وائرس سے تو نمٹ لیا جائے لیکن ہر قیمت پر کچرا بیچ کر ریٹنگ کمانے کے مرضیلے وائرس کا شائد کورونا بھی کچھ نہ بگاڑ پائے۔
مگر یہ سب پہلی بار تھوڑی ہو رہا ہے۔ ہر کچھ دنوں بعد میڈیا ایسی حرکت کردیتا ہے کہ کوئی نا کوئی پھر چیخ اٹھتا ہے۔ بدتمیز میڈیا، نا وقت اور مقام کی نزاکت کا احساس، جدھر منہ اٹھا کیمرے سمیت گھس گئے، بیڈ روم ہو کہ آپریشن تھیٹر۔ انگریزی اتنی کمزور کہ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ کے فرق سے بھی نابلد۔ ذرا ڈانٹو ڈپٹو یا سختی سے منع کرو تو واویلا مچا دیتے ہیں کہ مار ڈالا مار ڈالا، آزادیِ صحافت خطرے میں پڑ گئی۔
حالانکہ اب یہ آزاد میڈیا بیس برس کا عاقل بالغ کڑیل جوان کہلانے کے لائق ہے۔ عام طور سے اس عمر کے لڑکے بالے جو بھی اچھا برا کرتے ہیں لوگ اس کا ذمہ دار والدین اور ان کی تربیت کو نہیں بلکہ خود اس نوجوان کو ٹھہراتے ہیں۔
تاہم اس بے لگامی کا ذمہ دار بس میڈیا ہی ہے یا اور بھی کوئی ہے وہ کون ہیں جو عوام کے دکھ درد بانٹنے کے نام پر کئی گھنٹے سے مجتمع اپنے درجنوں یا سیکڑوں یا ہزاروں حامیوں کو شدید موسم میں اس وقت تک نعرے لگواتے رہتے ہیں جب تک پہلا کیمرہ نمودار نا ہوجائے۔
اور وہ کون ہیں جو محلے کے لونڈوں بالوں سے کہتے ہیں کہ ابے ٹائر سڑک پر رکھ دو لیکن تب تک آگ نا لگانا جب تک سات جیبوں والی خاکی جیکٹ والا دکھائی نا دے جاوے۔ اور جناب ایس ایچ او صاحب اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو۔ جیسے ہی فلانے فلانے فلانے اور فلانے چینل کا صحافی پہنچتا ہے۔ آپ کی دعا سے وکٹری کا نشان بناتے بناتے فٹ سے گرفتاری دے دوں گا۔ کیا کریں جی کرنا پڑتا ہے لوگوں کے لیے…
اور وہ کون ہیں جو حکومت کو چوبیس گھنٹے میں مزا چکھانے کا الٹی میٹم تو آسانی سے دے دیتے ہیں، امریکا اور بھارت کے لتے بھی خوب لے لیتے ہیں۔ مگر کسی بھی تقریب میں سب سے پہلی قطار سے بھی آگے لائن بنا کر کھڑے ہونے والے اکیس کیمرہ مینوں سے یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ بھئیا اگر آپ کے کیمرے میں زوم ان، زوم آؤٹ کی سہولت ہے تو پھر پیچھے کھڑے ہو کر بھی آپ تقریب فلما سکتے ہیں۔
میزبانوں کو خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ بات کسی نازک مزاج میڈیا پرسن کو ناگوار گذر گئی تو پھر صرف یہی پٹی چلے گی کہ آل پاکستان گھامڑ ایسوسی ایشن کی پریس کانفرنس میں بد نظمی کے مناظر۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیمرہ مین تو براہِ راست اسٹیج دیکھتے ہیں اور ان کی سیسہ پلائی " پشتینی" دیوار کے پیچھے بیٹھے تمام حاضرین کو کیمرہ مینوں کی تشریفات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
اور وہ کون ہیں جو جس قدر بدتمیز ہو اسے اسی قدر مراعات، مواقع، خبریں، دورے، پلاٹ، ایکسکلوسئیو، اسکوپ، حج، عمرے، امدادی رقوم، سرکاری و نجی سواریاں، ہیلی کاپٹرز کے چکر، بریکنگ نیوز اور تمغے عطا کرتے ہیں اور ایک خبری بوٹی دینے کے عوض معلومات کا پورا بکرا حلال کروا دیتے ہیں۔ پھر بھی اتنا کچھ کرنے کے باوجود فوائد وصول کرنے والے کی نگاہِ کرم کے دست بستہ محتاج رہتے ہیں اور اگر کوئی اس بے چارگی پر اعتراض کرے تو یہ کہہ کر خود کو ٹھنڈا کرلیتے ہیں کہ چھڈو جی دفع کرو۔ اپنا ای منڈا اے۔ دوجے تے ایدے نالوں وی ودھ کن…نے۔
قانون؟ ہتکِ عزت کے دعوے کی سہولت سے لے کر قانونِ احتساب، رائٹ ٹو پرائیویسی تک کونسا قانون اور پیمرا و پریس کونسل و سی پی این ای، اے پی این ایس، پی بی اے، پی ایف یو جے سمیت کون سا ادارہ نہیں ہے پاکستان میں۔ لیکن جنھیں اپنی ہیڈ لائنز لگوانے کی فکر ہو وہ ذرا قانون نافذ تو کرکے دکھائیں اور جنھیں اپنے بیانات چھپوانے، اپنے نام سے کالم لکھوانے اور ٹاک شوز میں شرکت کی آکسیجن درکار ہو، وہ جائیں تو سہی ایک دفعہ کسی کے خلاف بھی دعویٰ لے کر کسی ایوان کا دروازہ کھٹکھٹانے۔ ان کے اپنے ہی روک لیں گے کہ کیا غضب کررہے ہو۔ کن بھڑوں سے پنگا لے رہے ہو۔ دماغ تو ٹھیک ہے۔ انصاف تو خود کوریج کا پیاسا ہے۔
حالانکہ مغربی معاشرے جہاں سب سے پہلے اخبارات شائع ہونے اور ریڈیو ٹی وی نشریات شروع ہوئیں وہاں بھی انڈسٹری و سرکار کے نمائندوں پر مشتمل میڈیا کمپلین کمیشن یا کمیٹی یا کونسل نامی جانور کسی نا کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ لیکن آج تک پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں بن پایا۔ بننا تو دور کی بات کسی نے اس بارے میں سوچنے کا بھی نہیں سوچا۔ کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ مذہب اور میڈیا کی حرمت کے نام پر جو چاہیں کر گذریں۔ سب چلتا ہے۔
تو پھر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون، جب سب ہی کے گلے میں شہرت اور شہرت کے بل پر مایا کی بھوک کی گھنٹیاں بندھی ہوں۔ میں نے تو آج تک نہیں سنا کہ کسی بلی نے اپنے گلے میں خود ہی گھنٹی باندھ لی ہو۔ پھر بھی ایسی توقعات رکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟ توقعات تو ویسے بھی رکھنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ جسے کورونا نہ سیدھا کر سکے اسے اوپر والا بھی شائد ہی سیدھا کر سکے۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )