میری بلا سے سردرد کی پیٹنٹ گولی دس روپے کی آئے کہ سو کی۔ مجھے تو کوئی بس یہ بتا دے کہ کیا دس روپے کی گولی بیس روپے کی ہونے کے بعد خالص ملے گی؟ یہ سوال یوں پیدا ہو رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں جعلی دواؤں کا تناسب چالیس سے پچاس فیصد (دیہی علاقوں میں لگ بھگ اسی فیصد) کے درمیان بتایاجاتاہے۔ چند بڑے شہر چھوڑ کے قصبات اور دیہات دو نمبر بلکہ تین نمبر دواؤں کی سلطنت ہیں۔ ورنہ جگہ جگہ کاہے کو سننا پڑے کہ بس فلاں میڈیکل اسٹور سے دوائیں خریدنا اور کہیں سے مت لینا۔
میرا مسئلہ دواؤں کی قیمت آسمان چھونے سے زیادہ یہ ہے کہ مہنگی ہونے کے بعد کیا اسپتالوں کو ایکسپائرڈ دواؤں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ ہوسکتا ہے دوا ساز کمپنیاں کہیں کہ ہم تو صرف دوائیں بناتے ہیں۔ یہ ذمے داری تو ہول سیلرز کی ہے کہ وہ ایکسپائرڈ یا نان ایکسپائرڈ کا خیال رکھیں۔ اور ہول سیلرز یہ کہیں گے کہ کمپنیاں ہم سے ایکسپائرڈ دوائیں واپس نہیں لیتیں تو ہم کیا کریں؟
یہ بات تو طے ہے کہ دوائیں ایک خاص تاریخ کے بعد استعمال نہیں کی جاسکتیں۔ مگر کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر ان دواؤں کا آخر ہوتا کیا ہے؟ میں نے منوں ٹنوں منشیات تلف ہونے یا سیکڑوں لیٹر شراب سے بھری بوتلیں بلڈوزروں سے کچلے جانے کی تصاویر تو بے شمار دیکھی ہیں لیکن آج تک حسرت ہی رہی کہ کوئی دوا ساز کمپنی، کوئی ہول سیلر، کوئی محکمہ صحت، کوئی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی یہ شائع تصویر بھی دکھا دے کہ ایکسپائرڈ دواؤں کے ذخیرے کو برسرِ عام تلف کیا جارہا ہے۔ تو پھر یہ سب کہاں جاتی ہیں؟ کہیں تو جاتی ہی ہوں گی اور وہاں سے ہمارے جسموں میں ہی آتی ہوں گی۔
کیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کسی دوا ساز کمپنی کو طے شدہ میکنزم سے انحراف پر سزا دے سکتی ہے؟ شائد سزا کا ڈھانچہ موجود ہے مگر اس ڈھانچے کو کتنی بار زحمت دی گئی۔
مان لیا ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے بالا بالا دواؤں کی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی لیکن خود اتھارٹی کی منظوری سے بھی جو قیمت بڑھتی ہے اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے؟ میں سن اسی کے عشرے کے آخری برسوں کے ایک وزیرِ صحت سے واقف ہوں جو ڈرگ کنٹرول اتھارٹی سے قیمتوں میں اضافہ کروانے کے چند دن بعد ملک سے ایسے چمپت ہوئے کہ زندگی میں واپس نہ لوٹے۔ اس زمانے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ دس کروڑ روپے جس وزیر کو یکمشت ہاتھ آجائیں اسے پاکستان میں رہنے کی ضرورت ہی کیا۔ تو پچھلے ستر برس میں کیا اپنی نوعیت کا یہ ایک ہی کیس ہوا ہوگا؟
چلیے گولی ماریں سردرد کی گولی بنانے والے گولی بازوں کو۔ اس پاکستان میں کتنے کاروباری ہیں جو منافع کا موقع سامنے ہو اور وہ اس پر شبخون نہ ماریں؟
کیا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کے بعدچوبیس گھنٹے کے لیے پٹرول پمپ بند نہیں ہوتے؟ کیا پرانے پٹرولیم، ڈیزل اور گیس اسٹاک کو پرانی قیمت پر ہی خالی کیا جاتا ہے؟
رمضان کے مہینے میں کیا ہوتا ہے؟ کون کون مسلمان کاروباری روزے کے ثواب کو روزی کی چاندی سے نہیں بدلتا اور آخری دس روز گاہک کی کھال سے نئے جوتے نہیں بنواتا؟
نجی کاروباری تو چھوڑیں خود سرکاری کاروباری اور وہ بھی پی آئی اے جیسے ادارے جنھیں ہماری آپ کی جیبوں سے سالانہ اربوں روپے کا امدادی ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ اور جب پی آئی اے کو بیساکھیوں پر کھڑا رکھنے والوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تب پی آئی اے کا کیا رویہ ہوتا ہے؟
حال ہی میں کووڈ نائنٹین وائرس کی وبا کے دوران آپ نے ملاحظہ کر ہی لیا ہوگا۔ کورونا نے محض کسی ایک ایئر لائن کو نہیں بلکہ عالمی ہوابازی کو گھٹنوں کے بل جھکا دیا ہے۔ مگر بیشتر ایئر لائنز نے بیرونِ ملک پھنسے ہزاروں شہریوں کو اس غیر معمولی صورتِ حال میں تنہا نہیں چھوڑا بلکہ بلا معاوضہ پھنسے ہوئے شہریوں کو وطن واپس لایا گیا۔ پی آئی اے نے بھی ابتدا میں یورپ اور امریکی سیکٹرز کے لیے بالخصوص کچھ پروازیں مفت چلائیں (یعنی ان پروازوں کے اخراجات مسافروں کے بجائے حکومت نے برداشت کیے )۔
مگر پھر خاموشی کے ساتھ یہ پالیسی بدل گئی اور نہ صرف حالات کے جبر کے ہاتھوں خلیجی ممالک میں پھنسے ہوئے مزدوروں سمیت کئی ممالک سے وطن واپسی کے خواہش مندوں سے پورا پورا کرایہ وصول کیا گیا بلکہ بعض سیکٹرز پر دگنے نرخ سے بھی زائد کے ٹکٹ بیچے گئے۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ پروازوں کا نظام معطل ہونے سے آپریشنل اخراجات بڑھ گئے ہیں لہذا زائد کرائے اسی مد میں وصول کیے جارہے ہیں۔ لیکن جب میڈیا میں ہا ہا کار مچی تو پی آئی اے کی قیادت نے ایک جعلی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا " اچھا؟ اس قدر ظلم۔ ہم ابھی خبر لیتے ہیں اور سدِ باب کرتے ہیں۔"
میرے پاس اس وقت کچھ نہیں بچا مزید سوچنے یا لکھنے کو۔ علاوہ اس ہزار بار سنی پھٹیچر کہانی کے۔
" بادشاہ کے لشکر نے ایک گاؤں کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔ خیمے تن گئے۔ گوشت چولہوں پے چڑھ گیا۔ بادشاہ نے شاہی کارندے کو دوڑایا کہ گاؤں سے نمک خرید لاؤ۔ کسی لال بھجکڑ درباری نے پوچھا حضور نمک جیسی حقیر شے خریدنے کی کیا ضرورت۔ گاؤں والے ویسے ہی ڈلے کے ڈلے لے آئیں گے۔ آخر کو آپ ان کے بادشاہ اور وہ رعایا ہیں۔ بادشاہ نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا اگر میں نے نمک جیسی بے قیمت شے بھی مفت حاصل کرنے کی اجازت دے دی تو اسے مثال سمجھ کے میرا لشکر پورے گاؤں کو مفت کا مال سمجھ کے اجاڑ ڈالے گا۔
مگر یہ پرانے دور کی کہانی ہے جب بادشاہ کی چلا کرتی تھی۔ اب تو بادشاہ خود چابی سے چلتا ہے۔ ان حالات میں دواؤں کا طالب مریض ہو، کہ سستی کھاد کا منتظر کسان، کہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے والا بے روزگار، کہ اپنی تنخواہ میں ہی گزارہ کرنے والا صابر و سادہ پوش۔ ان سب کے لیے ایک ہی پیغام ہے۔ جاگدے رہنا ساڈہے تے نہ رہنا۔