مجھے شری نریندر مودی یا ان کے دستِ راست وزیرِ داخلہ شری امیت شا سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اخلاص کے ساتھ سینہ تان کے دھڑلے سے بیچ میدان کر رہے ہیں۔ اگر ان دونوں سے زیادہ خطرناک کوئی ہے تو وہ حزبِ اختلاف ہے جو بظاہر مودی کی پالیسیوں کی کھلی دشمن ہے، آئین کے ساتھ ہونے والے ریپ پر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے مگر جب پارلیمنٹ میں لمبی لمبی جذباتی تقاریر کے بعد ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو یہ حزبِ اختلاف اپنے ہی موقف کی کمر میں خنجر گھونپ دیتی ہے۔
بھارتی ایوانِ زیریں لوک سبھا کی چار سو تینتالیس نشستوں میں سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے پاس ساڑھے تین سو جب کہ حزبِ اختلاف کے پاس ایک سو چھیانوے نشستیں ہیں۔ مگر جب کشمیر کا تیاپانچا کرنے والے آرٹیکل تین سو ستر کو ہٹانے کے معاملے پر ووٹنگ ہوئی تو حزبِ اختلاف نے صرف اکیانوے ووٹ ڈالے۔ یوں لوک سبھا میں آرٹیکل تین سو ستر کو ہٹانے والا قانون بھاری اکثریت سے منظور ہو گیا۔
توقع تھی کہ راجیہ سبھا میں بی جے پی حکومت یہ قانون منظور نہیں کروا پائے گی کیونکہ راجیہ سبھا میں حزبِ اختلاف کو دو سو چالیس کے ایوان میں عددی برتری حاصل ہے۔ راجیہ سبھا میں سادہ اکثریت سے کسی بھی قانون کی منظوری کے لیے ایک سو اکیس ووٹ درکار ہیں جب کہ بی جے پی کے حامی ایک سو ایک اور باقی جماعتوں کے کل ملا کے ایک سو بیس سے زائد ہیں۔
مگر نہ صرف آرٹیکل تین سو ستر کی تنسیخ کا قانون بلکہ شہریت کا ترمیمی قانون بھی بی جے پی راجیہ سبھا کی اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود بہت آرام سے منظور کروا کے لے گئی۔ اس قانون کے حق میں ایک سو پچیس اور مخالفت میں ایک سو پانچ ووٹ پڑے۔ منافقانہ ووٹنگ کے باوجود سیاسی آختا حزبِ اختلاف راگ الاپ رہی ہے کہ بھارتی آئین اور سماج کے ساتھ بہت برا ہو رہا ہے۔
جب حزبِ اختلاف کے دوغلے پن کا یہ عالم ہو تو سول سوسائٹی بھلے کتنا بھی شور مچا لے وہ قانون بدلنے سے قاصر ہے۔ حالانکہ مودی حکومت کیا گل کھلائے گی یہ بات ہر کسی کو پہلی مودی حکومت بننے سے پہلے ہی معلوم ہو چکی تھی۔ شور بھی بہت مچایا گیا اور اب بھی مچایا جا رہا ہے مگر اس شور کی اہمیت دڑبے میں بند ذبح ہونے کی منتظر مرغیوں کے شور سے زیادہ نہیں۔
بھارت کے چوٹی کے سائنس دان، سابق جرنیل، فنکار، ادیب، سفارتکار، ماہرینِ تعلیم اور دانشور ملک میں تیزی سے کم ہوتی آکسیجن، ایک خاص طرح کے نظریے کو آگے بڑھانے کی ننگی کوششوں اور رنگارنگ بھارتی سماج کو ایک ہی گیروا ٹوپی اور واسکٹ پہنانے کی منصوبہ بندی کے خلاف آج سے نہیں چھ برس سے چیخ رہے ہیں، سرکاری اعزازات واپس کر رہے ہیں، قراردادیں منظور کر رہے ہیں، پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں، دستخطی مہمیں چلا رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں۔
غرض بات کہنے کا ہر ڈھنگ اور ہر فورم استعمال ہو رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ان بڑھتی آوازوں میں ایک نئی آواز شامل نہ ہو رہی ہو۔ مگر لگتا ہے کہ مودی امیت شاہ ٹولہ تو مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جب کہ ان کے مخالف کولہو کے بیل کی طرح گول گول گھوم کر سمجھ رہے کہ وہ بھی مسلسل چل رہے ہیں۔
مثلاً ایڈمرل ریٹائرڈ لکشمی نرائن داس انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کی بحری ناکہ بندی کے نگراں تھے۔ انھیں اس ضمن میں اعلی فوجی اعزاز ویر چکر عطا ہوا۔ انیس سو نوے تا ترانوے بھارتی بحریہ کو کمان کیا۔ بعد از ریٹائرمنٹ فلاحی کاموں میں متحرک ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ دیگر ریٹائرڈ جنرلوں کی طرح گالف کھیلتے، کتاب پڑھتے، ٹی وی دیکھتے یا سورگ کی فکر کرتے ہوئے سنیاس میں جی لگاتے۔ مگر اب سے چھ برس پہلے مودی کے برسرِ اقتدار آتے ہی ایڈمرل داس نے اس وقت کے راشٹر پتی پرنب مکھر جی کو لمبا چوڑا خط لکھ ڈالا۔ لگتا ہے گویا چھ گھنٹے پہلے لکھا ہو۔ ملاخطہ کیجیے۔
"جب پارٹیشن ہوئی تو میں چودہ برس کا تھا۔ میں بھی ایک ہندو ہوں مگر میرا ہندو پن مجھے محبت اور دوسروں کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔ اس میں تشدد اور زور زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج اس ملک میں کم زاتوں اور اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس نے بڑھاپے میں میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ میں نے اس ملک کی حفاظت کے لیے جس فوج میں پینتالیس برس گذارے اس میں ہر سپاہی بلا امتیازِ مذہب و ملت ایک ساتھ جیتا اور ایک ساتھ مرتا ہے۔ مگر جس ملک کی ہم نے حفاظت کی اسی ملک میں آج مسلمان کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے خود سے صفائیاں پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ پھر بھی وہ ہر نئے دن مزید عدم تحفظ کا شکار ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے۔
صاف لگ رہا ہے کہ آر ایس ایس کی قیادت اس دیش کو ایک ہندو مذہبی راشٹر میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے ہجوم کو استعمال کیا جارہا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ جو لوگ حکومت میں ہیں انھیں اس طرح کی گھٹناؤں سے کوئی پریشانی نہیں۔ ہمدردی تو رہی ایک طرف وہ تو افسوس کا اظہار بھی کھل کے نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ کے ممبروں، وزیروں اور پارٹی لیڈروں کے بیانات سے لگتا ہے کہ ایک منظم منصوبے پر آہستہ آہستہ آگے بڑھا جا رہا ہے۔
آگ سے کھیلنا اچھا ہے لیکن یہی آگ قابو سے باہر ہوجائے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ یہ جلنے والے کا گھر ہے کہ جلانے والے کا۔ کہاں دنیا میں ہم کچھ عرصے پہلے سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پہچانے جا رہے تھے اور کہاں ہمیں عالمی برادری ایک تنگ نظر اور فاشزم کے راستے پر چلنے والے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کے ساتھیوں نے جس بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھایا وہ سب کو بلا امتیاز جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر وہ اس حلف کی پاسداری میں ناکام رہتے ہیں تو یہ انتہائی المناک ہوگا۔
بھارت آج سے نہیں پانچ ہزار سال سے طرح طرح کی قوموں اور مذاہب کا گھر ہے۔ شائد ہی دنیا میں کوئی اور ملک اس قدر اچھوتا ہو۔ اگر اس رنگا رنگی کو یک رنگی میں بدلنے کی کوشش کی گئی تو کبھی کامیابی نہیں ہوگی۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں کوئی وجے ( فاتح ) نہیں۔ آپ کا مخلص ایڈمرل ریٹائرڈ ایل رام داس "۔
جب ایڈمرل رام داس سمیت سماج کے تمام طبقات کے سرکردہ لوگ کئی برس سے ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے بحران بہت سنگین ہے۔ عددی اعتبار سے یہ لوگ بظاہر چند سو سے زیادہ نہیں۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ ہزار بھیڑوں سے زیادہ اہم ایک گڈریا ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی گڈریوں کی کمی نہیں مگر پچھلے چالیس برس میں بالخصوص کتنے پاکستانی ایڈ مرلز، سائنسداں، فن کار، اہلِ قلم اور دانشور ابھرے جنہوں نے امڈتے طوفان کو چیلنج کرنے کی کھلی جرات کی یا جوق در جوق ایوارڈز و خطابات واپس کیے؟ بس یہی تو ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک آدھ کتاب لکھ ڈالی یہ ثابت کرنے کے لیے کہ "میں نے تو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ سمجھے ہی نہیں لہٰذا میں بھی چار و ناچار چپ بیٹھ گیا "۔
آج بھی جب مجھ جیسے دانش داروں کو نظریاتی بانجھ پن کی سردی لگتی ہے تو اپنا ذاتی مزاحمتی کمبل بنانے کے بجائے منٹو، فیض، جالب اور فراز وغیرہ کے کفن میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔