زراعت تو جمعہ جمعہ آٹھ دن پرانی ہے (یہی کوئی آٹھ ہزار برس)۔ اس سے پہلے انسان کا گذارہ شکار پر ہی تھا، بھوک لگتی تو دیگر جانوروں کی طرح انسان بھی اردگرد گھومتے پھرتے کسی چرند، پرند، درند یا آبی مخلوق کو ہاتھ، پتھر یا گوپھن سے ہلاک کر کے گوشت کھا جاتا اور کھال استعمال کر لیتا۔ آگ ہاتھ آئی تو ہاتھ سینکنے کے بعد دوسرا کام بھوننے کا ہی سیکھا ہوگا۔
آدمی نے ابتدائی یقیناً آدمی کو نہیں جن جناور مارنے کے لیے ایجاد کیے ہوں گے اور پتھر سے لوہے کے دور میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے نیزہ اور چھری ڈھالے ہوں گے اور پھر گوشت کو خشک کرنے کا طریقہ سیکھا ہوگا تاکہ سخت سرد موسم میں بھوک مٹانے کے لیے غار یا کچھار سے ناوقت باہر نہ نکلنا پڑے۔
جب انسان شکار کے دور سے زراعت کے دور میں داخل ہوا تو جانور کے پیچھے دوڑنے کے تقابل میں کاشت کاری زیادہ سہل محسوس ہوئی ہو گی۔ کیونکہ پروٹین سمیت جملہ بنیادی غذائی ضروریات محض گوشت کے بجائے سبزیوں، دالوں اور بیجوں سے پوری کرنے کا راستہ دریافت ہو گیا۔ خشک گوشت کے مقابلے میں غلے کو زیادہ عرصے تک محفوظ رکھ کے استعمال کرنے کی خوبی نے غذائی عدم تحفظ کم کیا ہوگا۔
چنانچہ جو نسل ِ انسانی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شکار یا خودرو پھلوں پر انحصار کرتی آئی تھی۔ اس کی نسلوں نے چند ہی صدیوں میں دیکھتے ہی دیکھتے زراعت اختیار کر لی اور لگ بھگ نوے فیصد نسلِ انسانی صرف شکار و نباتات کے بجائے ہر موسم میں پیدا ہونے والی طرح طرح کی سبزیوں، جڑوں اور پھلوں کو استعمال کرنے پر قادر ہو گئی۔ زراعت کا تصور وسیع ہوا تو جانوروں کو دودھ، گوشت، کھال اور جتائی و باربرداری کے لیے پالنے اور پھر ان کے ریوڑوں کی دیکھ بھال کے نت نئے طریقے بھی سوچے گئے ہوں گے۔ یوں زراعت اور پالتو جانوروں کی مدد سے ایگرو انڈسٹری کی ابتدائی بنیاد پڑی ہو گی۔
گوشت کا استعمال چونکہ قبل از زراعت دور سے انسان کی خوراکی جبلت کا حصہ ہے لہذا زراعت اس جبلت کو کم تو کر پائی مگر کلی طور پر بدل نہ سکی۔ زرعی پیداوار کی مقدار سے بھوک آسانی سے مٹنے کا سامان تو پیدا ہو گیا مگر گوشت کی پیداوار چونکہ زرعی پیداوار کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہی رہی لہذا بدن کی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی اجناس کے ہوتے ہوئے بھی گوشت کا زیادہ سے زیادہ استعمال طبقاتی غذائی ضروریات کااستعارہ بنتا چلا گیا۔ آپ عہدِ قدیم سے آج تک حکمرانوں، امرا اور تجار کی ضیافتوں کا احوال پڑھ لیں ان میں آپ صرف گوشت کے پکوانوں کا تذکرہ ہی پڑھیں گے۔ دال روٹی کا محاورہ صرف سفید پوشی اور غربت کے تعلق سے ہی ملے گا۔
صحرائی، پہاڑی، گھنے جنگلاتی علاقوں یا ساحلی بستیوں میں جہاں جہاں زراعت ایک دشوار و مشقت طلب عمل تھا اور کہیں کہیں آج بھی ہے وہاں تو عام آدمی کا گوشت پر زیادہ گذارہ سمجھ میں آتا ہے۔ مگر زراعت کے لیے موزوں میدانی علاقوں میں اگر دستر خوان پر سبزی اور دال کے مقابلے میں گوشت زیادہ نظر آ رہا ہے تو اس کا مطلب سیدھا سیدھا طبقاتی خوشحالی کے نتیجے میں پیدا کی جانے والی ضروریات اور ان کا غذائی اظہار ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ گوشت خور سماج شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے خطوں اور ممالک میں ہے۔ گوشت کی سب سے زیادہ پیداوار (عالمی پیداوار کا پینسٹھ فیصد) بھی امریکا، برازیل، یورپی یونین یا پھر چین اور بھارت جیسے کم آمدنی سے زیادہ آمدنی کے دائرے میں داخل ہونے والے ممالک سے حاصل ہوتی ہے۔ (جن ممالک کی زیادہ آبادی گوشت کے بجائے طبعاً سبزیات کی جانب مائل ہے ان میں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افریقی ملک برونڈی سرِ فہرست ہیں )۔
عالمی ماحولیات کو گوشت کچھ نہ کہتا اگر اس کی پیداوار صنعتی انداز میں بڑھانے کے لیے مصنوعی اور قدرے بھونڈے طریقے استعمال نہ کیے جاتے۔ گوشت کی پیداوار زبردستی بڑھانے کے لیے انڈسٹریل اینیمل فارمنگ کی علت نے قدرتی وسائل پر بے پناہ دباؤ ڈالا ہے۔
مثلاً ایک کلو گرام سبزی پیدا کرنے کے لیے تین سو بائیس لیٹر اور ایک کلو گرام پھل پیدا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نو سو باسٹھ لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ایک کلو گرام بیف پیدا کرنے کے لیے پندرہ ہزار چار سو پندرہ لیٹر پانی درکار ہے۔ اوزون کی تہہ کو سی او ٹو اور میتھین گیس کے صنعتی اخراج سے سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ میتھین سی او ٹو سے چالیس فیصد زائد نقصان دہ ہے۔ اور دنیا میں اس وقت چالیس فیصد میتھین صنعتی پیمانے پر افزودہ جانوروںسے خارج ہو رہی ہے۔ یعنی ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز سے بھی زیادہ۔
لگ بھگ ساڑھے سات سو ارب ڈالر کی سوا تین سو ملین میٹرک ٹن عالمی لحمیاتی پیداوار کنٹرول کرنے والی تین بڑی امریکی کمپنیاں جے بی ایس، کرگل اور ٹائسن اس وقت مجموعی طور پر ماحولیات کو ناقابلِ تلافی ضرر پہنچانے والی جتنی گرین ہاؤس گیسز پیدا کر رہی ہیں ان کی مقدار فرانسیسی معیشت سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز سے بھی زیادہ ہے۔
اگرچہ ریڈ میٹ کا ضرورت سے زیادہ استعمال طرح طرح کے سرطان اور دل کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ مگر انسانی صحت کے لیے اس سے بھی سنگین مسئلہ گوشت کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہارمونز اور اسٹیورائڈز کو جانوروں کی خوراک میں شامل کرنا ہے۔ جب یہ کیمیاوی آلودہ گوشت انسان کھاتا ہے تو لا محالہ مضر اثرات انسان میں بھی منتقل ہوتے ہیں۔
مگر گوشت کی صنعت نے منافع خوری کی بیشتر حدیں پھلانگ لی ہیں۔ کیمیاوی اجزا سے آلودہ خوراک کے ذریعے چوزے کے افزائشی عمل کو تین گنا تیزی سے بڑھا کر صرف اڑتالیس دن میں اتنا بڑا کر دیا جاتا ہے جتنا اسے قدرتی ماحول میں ایک سو بارہ دن میں ہونا چاہیے۔ مرغی کا قدرتی وزن اوسطاً ڈیڑھ کلو تک ہوتا ہے مگر ہارمونز اور دیگر اجزا کی مدد سے اس کا اوسط وزن ساڑھے تین کلو تک بڑھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ایسے گوشت کی انسانی جسم کے لیے کتنی افادیت یا غذائیت ہو سکتی ہے؟ آپ خود سیانے ہیں۔
دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے زائد ہے۔ اگرچہ غربت بھی اسی اعتبار سے بڑھ رہی ہے مگر مڈل کلاس میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ دو ہزار پچاس تک گوشت کی متلاشی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے آج کے مقابلے میں لگ بھگ دگنی لحمیاتی پیداوار درکار ہو گی۔ مگر زمینی و ماحولیاتی وسائل پر جس قدر دباؤ پڑ چکا ہے، اس کے ہوتے یہ ضرورت پوری کرنا شائد ممکن نہ ہو پائے۔
اس کا ایک راستہ لیبارٹری سے ہو کر جاتا ہے۔ دو ہزار تیرہ میں ایک ایسی خبر آئی جس پر سائنسی کمیونٹی کے سوا کسی نے خاص کان نہیں دھرا۔ خبر یہ تھی کہ ہالینڈ کی ماسترخت یونیورسٹی میں ڈاکٹر پوسٹ مارک اور ان کی ٹیم نے بالاخر لیبارٹری میں گوشت تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
انھوں نے گائے کے ایک لحمیاتی ریشے کو اسٹیم سیلز کی مدد سے ملٹی پلائی کر کے دس ہزار ریشے بنائے (ایک اوسط بیف برگر کے ریشوں کی تعداد کے برابر)۔ ڈاکٹر پوسٹ مارک کے بقول گائے کے ایک ریشے میں جتنے ٹشوز ہوتے ہیں انھیں اسٹیم سیلز کی مدد سے ملٹی پلائی کر کے اسی ہزار برگر تیار ہو سکتے ہیں۔
اندازہ ہے کہ دو ہزار اٹھائیس تک "لیب میٹ"کی اتنی مقدار بنانے میں کامیابی حاصل ہو جائے گی کہ اس کی تجارتی فروخت شروع ہو سکے۔ اگرچہ ذائقے اور ٹیکسچر میں لیب میٹ قدرتی گوشت جیسا ہی ہوگا مگر اسے لوگوں کے ذائقے کا قابلِ قبول حصہ بننے میں کئی عشرے لگ سکتے ہیں اور سب سے بڑی رکاوٹ گوشت کی ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری ہو گی۔ جس کی لابی امریکا کی گن لابی سے زیادہ طاقتور ہے۔
مگر ڈاکٹر پوسٹ مارک کو امید ہے کہ جیسے جیسے لوگ ماحولیاتی تباہی کی شدت محسوس کریں گے توں توں وہ گوشت کھانا چھوڑیں گے تو نہیں لیکن کسی زندہ گائے، بکری یا مرغی کے بجائے لیب میں تیار ہونے والے آلودگی اور کیمیاوی ملاوٹ سے پاک گوشت کو ترجیح دیں گے۔ ہالینڈ کے ایک آن لائن ریسٹورنٹ نے تو دو ہزار انتیس کے لیے لیب میٹ سے تیار ہونے والے پکوانوں کے آرڈر ابھی سے لینے شروع کر دیے ہیں۔