میری نانی میلاد پڑھا کرتی تھیں۔ کسی عورت نے کبھی نہ پوچھا کہ اے بہن کے جماعت پڑھی ہو اور کس مدرسے سے؟ بس قرآن پڑھا ہوا تھا وہ بھی بچپن میں، جیسا کہ ان دنوں ہر گھر میں رواج تھا۔ اور پھر قصص الانبیا یاد کر رکھے تھے۔ تس پے محلے کی ساری عورتیں انھیں ملانی جی پکارتی تھیں۔
نہ کیلکولیٹر تھا نہ کمپیوٹر، سب کچھ ملانی جی کے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ تھا۔ بلکہ ہارڈ ڈسک کی اصطلاح بھی میں نے نانی کی وفات کے کئی برس بعد ہی سنی۔ جب کبھی میلاد کا نیوتا آتا تو نانی جز دان میں قرآن، قصص الانبیا کی جلد اور نعت شریف کی دو پتلی کتابیں باندھ کر مجھے تھما دیتیں۔ گویا میں ان کا سیکریٹری تھا جس کا کام تھا ان کے ساتھ ساتھ چل کے متعلقہ پتے تک پہنچانا اور پھر ڈیڑھ دو گھنٹے بعد اس جز دان اور نانی کو گھر لانا۔
میں نے کبھی نہ دیکھا کہ کسی نے نانی کو میلاد سے پہلے یا بعد میں نذر پیش کی ہو۔ زیادہ سے زیادہ سفید جارجٹ یا اریب کا دوپٹہ ان کے سر یا گلے میں ڈال دیا جاتا۔ البتہ بٹتی شیرینی میں سے میں اپنا حصہ ضرور بقدرِ محنتانا اچک لیتا۔ نانی گھورتی رہ جاتیں مگر اس وقت کچھ نہ کر سکتی تھیں۔ راستے میں گوشمالی ہوتی " لوگ کیا کہتے ہوں گے میرا نواسہ اور اتنا ندیدہ توبہ توبہ"۔
عاشورے کے دوران نانی کے معمولات میں کوئی خاص فرق نہ آتا۔ بس یکم سے دس تاریخ تک نفلی روزے شروع ہو جاتے۔ ظہر سے عصر تک چند عورتیں جمع ہوجاتیں اور نانی سے اہلِ بیت کے قصے سنتیں۔ پڑوس میں بس ایک گھرانا تھا جہاں روز عشا کے بعد زنانہ مجلس اور ماتم ہوتا۔ نانی نے ہم بچوں کو کبھی وہاں جانے سے نہ روکا۔ بس ایک تلقین کرتیں۔ جاؤ تو پوری مجلس تمیز سے بیٹھ کے سنو ورنہ مت جاؤ۔ بس ماتم سے پہلے واپس آجانا اور تبرک کے لیے ندیدے مت ہو جانا۔
میری والدہ کو کسی نے نہیں سکھایا، وہ کسی مجلس میں نہیں گئیں، انھوں نے کبھی میلاد نہیں پڑھایا مگر آج بھی وہ دس محرم کو نفلی روزہ رکھتی ہیں۔
جہاں تک ددھیال کا معاملہ ہے تو وہاں تو مرحوم کا سوئم نہیں ہوتا تو میلاد اور ربیع الاول اور محرم کے بارے میں کیا سوچنا۔ اللہ، نبی، قرآن اور بندہ اور بس۔
ایسے ماحول میں میرے والد کے سب سے قریبی دوست حمید حسن نقوی تھے۔ اور دوستی کا مطلب دونوں کی بیویاں اور اولادوں کا بھی ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اور ہر اہم غیر اہم، اچھے برے وقت میں مشاورت۔ کسی کا حال کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔
نقوی صاحب مجھے نصابی انگریزی اور اردو ادب بھی پڑھاتے تھے۔ ان کا گھرانہ اس قدر مذہبی تھا کہ محرم کے پہلے دس روز چولہا ٹھنڈا رہتا۔ چالیس دن مجالس و سوز۔ میرے والد نے کبھی شرکت نہ کی مگر ہمیں تاکید تھی کہ روزانہ جانا ہے اور جو بھی کام کاج ذمے لگائیں اسے کرنا ہے۔
اگرچہ مجھے اس سات آٹھ برس کی عمر میں وسیع المشربی کا واؤ بھی نہیں معلوم تھا۔ بہت بعد میں جا کر اس کے معنی معلوم ہوئے توکوئی حیرت نہ ہوئی۔ اسی وسیع المشربی میں تو میری نسل کی تربیت ہوئی تھی۔ اس کے بعد معنی معلوم ہوں نہ ہوں کیا فرق پڑتا ہے۔
اس قصبے میں ہمارے محلے سے جڑے محلے کے احاطے میں ایک بڑے سے چبوترے پر محرم کا چاند نظر آتے ہی تعزیے کا چوبی ڈھانچہ رکھ دیا جاتا اور اس پر پنیاں، جھالریں لگنی شروع ہو جاتیں۔ نو محرم کی شام تک تزئین و آرائش مکمل ہوجاتی۔ تعزیے کے سامنے زمین پر سرسوں کے بہت سے دیے جلائے جاتے۔ عزاداروں کی ٹولیاں آتیں، ذرا دیر ماتم کرتیں، کچھ عزادار دئیوں کے تیل میں انگلیاں ڈبو کر سر پر مل لیتے اور الٹے قدموں واپس ہو لیتے۔
جو گھرانے بظاہر عزاداری نہیں کرتے تھے ان کے ہاں سے آٹھ اور نو محرم کی شام سے صبح تک کھیر، حلوہ، بتاشے اور چنے سفید خوان پوشوں سے ڈھکی پراتوں میں برابر اس احاطے میں بھیجے جاتے رہتے۔ تاکہ کوئی بھی آئے تو سوکھے منہ واپس نہ جائے۔ شربت اور پانی کے ٹھنڈے ٹب خالی نہ ہونے پائیں، یہ بھی اہلِ محلہ کی ذمے داری تھی۔ وہ محلہ کہ جہاں پچاس باون گھر سنیوں کے اور پانچ یا سات گھر شیعوں کے تھے۔
پھر میں اپنے قصبے سے کراچی یونیورسٹی آ گیا اور ہاسٹل میں رہنے لگا۔ نئے نئے دوست بننے لگے۔ صرف ایک جھگڑا تھا، دائیں اور بائیں بازو کا، جماعتی و غیر جماعتی کا اور وہ بھی بحث و مباحثے کے دائرے میں۔
یونیورسٹی کے ماحول میں تعلق اہم اور مذہبی جزئیات و عقائد کا فرق ثانوی بلکہ غیر اہم تھا۔ اگر کوئی فرقئی تذکرہ ہوتا بھی تو نوک جھونک اور پھبتیوں یا لطائف کے پیرائے میں۔ کون کیسے نماز پڑھتا ہے، کون نہیں پڑھتا، کون مجالس میں شریک ہوتا ہے، کون عیدِ میلاد النبی کے جلوس میں جاتا ہے، کون ان سب سے آزاد ہے، کون کس سے ملتا ہے اور کیوں ملتا ہے، ہم سے کیوں نہیں ملتا، کس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا شیعوں میں ہے، کس کا اٹھنا بیٹھنا صرف سنیوں میں ہے۔ یہ ایسے نان ایشوز تھے کہ کبھی خیال تک نہ آتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ بس یہی نان ایشوز ہی سب سے اہم ایشوز بنا دیے جائیں گے۔
جب تک میں یونیورسٹی ہاسٹل میں رہا تب تک بہت سے سالانہ معمولات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میرے جتنے بھی شاعر و ادیب ٹائپ احباب تھے وہ نو محرم کی رات کو انچولی (کراچی کا ایک شیعہ اکثریتی علاقہ) میں ملتے تھے۔ کبھی جلوس کا حصہ بن گئے کبھی کہیں بیٹھ کر چائے پی لی، کسی ٹولی میں کوئی سریلا نوحہ خوانی کر رہا ہے تو وہاں کھڑے ہو گئے۔ فجر کے بعد علامہ طالب جوہری کی مجلس سنی اور واپسی۔
رفتہ رفتہ ہم سب زندگی کے جھمیلوں میں الجھتے چلے گئے، کوئی کدھر کوئی کہاں۔ گذشتہ سال مدت بعد اچانک دل چاہا کہ ایک بار پھر انھی گلیوں میں چلا جائے۔ دیکھیں تو سہی کہ اتنے برسوں میں کچھ بدلا کہ سب ویسا ہی ہے۔
وہاں پہنچ کے میں نے دیکھا کہ انچولی کی مرکزی سڑک پر سیکیورٹی جانچنے والے گیٹ لگے ہوئے ہیں، نوعمر والنٹئیر ہر آنے والے کی تلاشی لے رہے ہیں۔ جنھیں وہ چہروں سے پہچانتے ہیں انھیں آگے جانے دے رہے ہیں۔ جنھیں نہیں جانتے ان سے کچھ سوالات ہو رہے ہیں، کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں؟ مومن ہیں؟ نہیں ہیں تو کیا یہاں کا کوئی ریفرنس دے سکتے ہیں تاکہ ہم تصدیق کر لیں۔
مجھے یہ منظر دیکھ کے لمحے بھر کا جھٹکا لگا۔ مگر ایک بیس بائیس سال جیسی عمر کے والنٹیر نے مجھے پہچان لیا " ارے آپ یہاں کیسے؟ کوئی رپورٹنگ وپوٹنگ کے اسائنمنٹ پر آئے ہیں؟"۔ میں اس بچے کو کیا بتاتا کہ کیوں آیا ہوں، کیا تلاش کرنے آیا ہوں؟ بس اتنا پوچھ سکا یہ سیکیورٹی کے الیکٹرونک دروازے کب سے لگے؟ نوعمر والنٹئر بولا، میں نے تو سر جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہر سال یہی دیکھا ہے۔ حالات تو آپ کو پتہ ہیں سر۔