بھلے چودھویں صدی عیسوی کے پسماندہ یورپ میں پھیلنے والا طاعون ہو جو یورپ کی ایک تہائی آبادی چٹ کر گیا یا پھر بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پھیلنے والا اسپینش فلو جو پہلی عالمی جنگ کے اختتامی مراحل میں شروع تو یورپ کے محاذ پر ہوا لیکن جب جنگ سے لوٹنے والے برطانوی ہند کے دیسی سپاہی اسے اپنے ساتھ وطن لائے تو اگلے دو برس میں یہ فلو دو کروڑ ہندوستانیوں کو چٹ کر گیا۔
اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں اسپینش انفلوئنزا سب سے بڑی وبا تھی۔ اندازہ ہے کہ پوری دنیا میں جنوری انیس سو اٹھارہ سے دسمبر انیس سو بیس کے درمیان پانچ کروڑ لوگ لقمہِ اجل بنے۔ اور اگر ان میں سے دو کروڑ ہندوستانی ہوں اور اس وقت ہندوستان کی آبادی تیس کروڑ ہو اور اس ہندوستان میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس زمانے کا ہر پندرواں ہندوستانی اس وبا کا شکار ہو گیا۔ آج کے کورونا وائرس کے برعکس اسپینش فلو میں سب سے زیادہ اموات جوان نسل میں ہوئیں جب کہ ادھیڑ عمر آبادی پر کم اثر ہوا۔ چنانچہ یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ معیشت اور سماجی ڈھانچے کا کیا حال ہوا ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ اس وبا کے خاتمے کے ستائیس برس بعد ہندوستان کو برطانیہ سے جو آزادی ملی اس میں اسپینشن فلو کا بھی دخل ہے جس نے برٹش انڈین ایمپائر کی چولیں ہلا دیں۔ پہلی بار ہندوستانی رعایا کو احساس ہوا کہ انگریز ہر مرض کی دوا نہیں۔ دکھ بانٹنے کے بجائے برٹش انڈیا کی سرکار نے الٹا اس وبا کے عروج کے زمانے میں خود مختاری مانگنے والی دیسی سیاسی آوازیں دبانے کے لیے رولٹ ایکٹ نافذ کیا۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا اور ستیہ گرہ اور تحریکِ خلافت کے اتحاد نے انگریز سرکار کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا۔ محکوموں کے دل سے حاکم کی سطوت کا خوف نکل گیا۔ ایک جیتا جاگتا ثبوت بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی مسلح تحریک بھی تھی۔
اونٹ کی کمر پر آخری تنکا انیس سو بیالیس تینتالیس کا قحطِ بنگال ثابت ہوا۔ اسپینش فلو تو چلئے قدرتی آفت تھی اور یہ مانا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اس کا توڑ تلاش کیا جا سکے۔ اینٹی بائیوٹک ویکیسین بہت بعد کی پیش رفت ہے۔ البتہ بنگال کا قحط تو خالصتاً نوآبادیاتی سفاکی کا نتیجہ تھا جب چرچل حکومت نے ترجیحی بنیاد پر غلہ برطانوی نوآبادیاتی سپاہ کے لیے جمع کرنے کے احکامات دیے اور مقامی لوگوں کو بھوک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد نوآبادیاتی اقتدار کا لپٹنا یقینی تھا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے تباہ کن اخراجات نے انگریز اقتدار پر حتمی اناللہ پڑھ لیا۔
پھر بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے شروع میں دنیا سوائن فلو، سار، ایبولا اور ڈینگی سے متعارف ہوئی مگر ان وباؤں سے اولاً تو دنیا کے غریب خطے متاثر ہوئے دوم یہ وائرس خطرناک ہونے کے باوجود عالمی پہنچ نہیں رکھتے تھے۔ لاکھوں لوگ متاثر تو ہوئے مگر الگ الگ خطوں میں الگ الگ اوقات میں۔
البتہ اب جو کورونا نازل ہوا ہے وہ سب کا باپ ہے۔ یہ پہلا وائرس ہے جس نے شرق و غرب شمال جنوب، غریب امیر، گورے کالے، ہندو مسلمان مسیحی ملحد، دائیں اور بائیں کی تمیز مٹا کر بندے اور بندہ نواز کا فرق مٹا دیا اور یہ سب ایسے وقت ہوا جب طبی سائنس، ڈجیٹلائزیشن، گلوبلائزیشن اور مواصلاتی ترقی و رسائی مثالی عروج پر ہیں۔
کورونا ایک ایسے دور میں انسان کو نہتا کر رہا ہے جس کے بارے میں سینہ ٹھونک کے کہا جاتا ہے کہ پچھلے پچاس برس میں کرہِ ارض پر جتنی ترقی اور ایجادات و ٹیکنالوجی کا فروغ ہوا وہ گذشتہ سات ہزار برس کے تمام تہذیبی ادوار کی مجموعی ترقی سے بھی زیادہ ہے۔
جس طرح اور وبائیں دم توڑ گئیں کورونا بھی ایک دن ختم ہو جائے گا اور اس کی ویکسین بھی عام ہو جائے گی۔ مگر انسان، حکومت اور ریاست نے اس کرہِ ارض کو دیکھنے کا نظریہ نہ بدلا تو اگلی وبا اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور قیامت خیز ہو گی۔ ممکن ہے اگلی وبا اس زمین پر انسان کی حکومت ہی ختم کر دے اور چرند پرند و حشرات و درخت آدم جاتی کا ایسا حشر دیکھ کر اپنے کانوں کو پنجے اور پتے لگائیں۔
پر وہ جو کہتے ہیں کہ بے شک انسان بہت ڈھیٹ اور کور چشم ہے۔ یورپ کا بلیک پلیگ اور بیسویں صدی کا اسپینش فلو بھی اسے فطرت اور دیگر ہمسایہ جانداروں سے دوستی اور زمینی وسائل کی قدر نہ سکھا پایا اور دفاع و جارحیت کا نظریہ بدلنے پر ٹس سے مس نہ کر پایا۔ الٹا اسپینش فلو کے خاتمے کے صرف انیس برس بعد انسانوں نے پھر ایک دوسرے سے سینگ پھنسا لیے اوردوسری عالمی جنگ میں تین کروڑ اشرف المخلوق ہلاک ہو گئے۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اگلے پچھتر برس کی چھوٹی اور بڑی لڑائیوں میں کم ازکم پانچ کروڑ مزید انسان ہلاک ہو گئے۔
چنانچہ ثابت تو یہی ہو رہا ہے کہ انسان اسپینش فلو اور کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دھرتی، اس کے اندر اور باہر کی ایک ایک شے، درخت، جانور اور موسم سب انسانی خطرناکی کے چشم دید اور ڈسے ہوئے ہیں۔ اگر واقعی کوئی آفاقی عدالت ہے تو انسان پر سنگین ترین فردِ جرم عائد کرنے میں اسے اب کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔
ذرا کھڑکی سے باہر تو جھانکئے۔ دھرتی کو کتنے برس بعد آرام ملا ہے، درخت بے خوف لہلہا رہے ہیں، ہوا کا سانس پہلی بار کاربن ڈائی اکسائیڈ اور دھوئیں سے نہیں گھٹ رہا۔ پرندے جانتے ہیں کہ جتنا اڑ سکتے ہو یا چہچہا سکتے ہو سب کر لو کیونکہ شکاری اس وقت لاک ڈاؤن میں ہے۔ چرندوں اور درندوں کو کئی نسلوں بعد احساس ہو رہا ہے کہ یہاں کے اصل مالک تو دراصل ہم ہیں۔ سڑکیں بھاری ٹریفک سے نجات ملنے کی مسرت میں پاؤں پسارے لیٹی ہیں۔ جنگلوں کو ایک مدت بعد خود سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔
مگر کب تک؟ ذرا یہ وائرس تھم جائے انسان پھر سے بھول بھال کر اپنی اور زمین کی ایسی تیسی میں لگ جائے گا۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کورونا یہ سبق دے رہا ہے کہ سب سے بڑی دفاعی صنعت طب اور خیر بانٹنے والی سائنسی تعلیم اور سب سے موثر بندوق ویکسین کی سرنج ہے اور سب سے بڑی نعمت انفرادی خول نہیں بلکہ اجتماعیت و بین الاقوامیت ہے تو ایسے شخص کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔
انسانی دماغ ابھی ارتقا کے اس مرحلے تک نہیں پہنچ سکا کہ کامن سنس سے کام لینا سیکھ سکے۔ اس سکھلائی کے لیے کئی نسلیں اور چاہئیں۔ مگر اس کا کیا کریں کہ،
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی ( احمد نوید )