بچہ بچہ جانتا ہے کہ سب نظامِ حیات توازن پر قائم ہے۔ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔ ہر چیز توازنِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے ورنہ زندگی لنگڑانے لگے۔
میر صاحب کا یہ شعر بیشتر اصحاب جانتے ہیں مگر مفہوم کتنے جانتے ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
یعنی کیچوا مٹی کھاتا ہے اور زرخیز بناتا ہے۔ پرندے کیچوا کھاتے ہیں، پرندوں کو شکاری کھا جاتے ہیں۔ چھوٹے شکاریوں کو بڑے شکاری کھا جاتے ہیں۔ بڑے شکاریوں کو بیماری اور زخم چاٹ جاتے ہیں اور پھر ان ادھ موؤں کو گدھ کھا جاتے ہیں۔
گدھ کو کثرتِ خوراک یا قلتِ خوراک کھا جاتی ہے اور پھر گدھ کا پنجر مٹی کھا جاتی ہے۔ سمندری دنیا پر بھی یہی قانون لاگو ہے۔ فلکیات پر بھی یہی قانون جاری ہے۔ موت سے زندگی اور زندگی سے موت جنم لیتی ہے۔ گویا زندگی کا دائرہ زنجیر سا ہے۔ اگر اس زنجیر میں سے سب سے چھوٹی کڑی کو بھی زنگ لگ جائے تو اس کا اثر بڑی کڑی کو کمزور کردیتا ہے اور یوں پوری زنجیر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔
مگر پھر یہ زندگی کی زنجیر آخر ٹوٹتی کیوں نہیں؟ شائد اس لیے کہ فولادی زنجیر کے برعکس حیاتی زنجیر میں کمزور کڑیوں کی جگہ نئی کڑیاں لے لیتی ہیں۔ مگر زندگی دائرے میں ہی کیوں چلتی ہے؟ یہ مستطیل، تکون یا مربع کیوں نہیں؟ شائد رفتار کو یکساں، متوازن اور آگے کی طرف رواں رکھنے کے لیے دائرہ ہی سب سے بہتر شکل ہے۔ (گو انسان واحد جانور ہے جسے اکثر اس پہیے کو الٹا چلانے یا اس کی رفتار پر غالب آنے کا شوق چراتا ہے مگر ہر بار اپنے ہاتھ زخمی کرنے کے باوجود باز نہیں آتا )۔
لیکن سرکل آف لائف میں معنی اور رنگ کون بھرتا ہے۔ شائد تضاد؟سیاہ یوں سیاہ ہے کہ سفید سامنے کھڑا ہے۔ سچ کا وجود نہ ہو اگر جھوٹ مدِ مقابل نہ ہو۔ پانی کے بغیر خشکی کیسے سمجھ میں آئے گی؟ دنیا کی پوری آبادی یکساں ذہانت کی مالک ہو تو کیا ایسی دنیا ایک انچ بھی آگے بڑھ سکتی ہے؟ بے وقوفی کا وجود نہ ہو تو عقل مندی کو کون پوچھے؟ اگر سب مذکر ہوتا یا سب مونث ہوتا تو دنیا کے دن چلتی؟ سب کے پیٹ بھرے ہوتے تو دماغ کو زحمت دینے کی کتنی ضرورت تھی۔ تلاش کا سفر کوئی کیوں اختیار ہوتا۔ محرومی نہ ہوتی تو کوشش، مسابقت اور مقابلے کا تصور کیوں پیدا ہوتا۔ مقابلہ نہ ہوتا تو ترقی کیوں ہوتی۔ شاید یہ سب تضادات ہی زندگی کو متحرک اور متوازن رکھنے والے انجن کا پٹرول ہیں۔
حق اور باطل، ظالم اور مظلوم کی لڑائی؟ کیا یہ اختیار اور بے اختیاری کی لڑائی کے سوا بھی کچھ ہے؟ جب مظلوم غالب اور ظالم مغلوب ہو جاتا ہے تو پھر ایک نیا ظالم کیسے وجود میں آجاتا ہے۔ کیا تمام انسان کسی ایک ظالم یا ایک مظلوم پر کبھی متفق ہو سکے یا سکیں گے؟
ہر ایک کا باطل اور ہر ایک کا حق، ہر ایک کی سچائی اور ہر ایک کا جھوٹ اتنا الگ الگ کیوں؟ اچھا یہ کیوں کہا گیا کہ بے شک انسان ناشکرا ہے اور یہ کیوں کہا گیا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اور پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ شائد تضاد سے پیدا ہونے والی کش مکش ہی زندگی ہے۔
عقل کی حد کہاں سے شروع ہو کے کہاں ختم ہوتی ہے۔ عقیدہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے۔ عشق کیا بلا ہے اور یہ عقل اور عقیدے کے بیچ کہاں کھڑا ہے؟ عقیدہ اور عقل جڑواں ہیں کہ متضاد؟ یہ حریف ہیں کہ حلیف۔ دونوں محدود ہیں کہ لا محدود یا بین بین؟
شائد ان سوالات کا بھی یہی جواب ہو کہ زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے ایک منظم اتھل پتھل (کنٹرولڈ کیاس) ضروری ہے ؤرنہ تو سب قبرستان ہے۔
تو کیا یہ سب باتیں سب کی سمجھ میں یا ان میں سے کچھ باتیں کچھ کی سمجھ میں آ سکی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو سفاکی اور لالچ کی جبلت کو دبانے کا بھی کوئی طریقہ اب تک وضع کیوں نہ ہو پایا اور اپنے پیر پے کلہاڑی مارنے، کھلی آنکھوں مکھی نگلنے اور خود کو ہر صورت درست اور سامنے والے کو نادرست سمجھنے اور ہر حال میں نیچا دکھانے کی شعوری عادت لاشعور کا حصہ کیسے بنتی چلی گئی۔ تو کیا یہ جبلتیں انسانی خمیر میں ہیں یا خارجی ہیں؟
میں یہ کیا باتیں کررہا ہوں۔ مجھے سوجھی کیا ہے۔ ثابت کیا کرنا چاہ رہا ہوں۔ یقین کیجیے خود بھی نہیں معلوم کہ یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ ہوسکتا ہے یہ سب میرا لاشعور ہو؟ میرے اندر کا بچہ ہو۔ بچے ہی تو ہیں جو عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں مگر یہی سوالات تو جاننے کا تالہ کھولنے کی کنجی ہیں۔ ہر کوئی بھی یہ تالہ پورا نہ کھول پایا۔ شائد کھل گیا تو پھر کس کام کا؟
شائد میں یہ لکھنے بیٹھا تھا کہ جب کوئی فرد، گروہ یا ریاست قدرتی توازن کو بدل کے اپنی مرضی کا توازن بنا نے اور نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی دن سے لڑ کھڑانا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنی غلطی کا احساس بہت بعد میں جا کے کہیں ہوتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب خود تردیدی کی چادر بھی گل سڑ جاتی ہے اور جسمانی و ذہنی توازن بھی ڈولنے لگتا ہے۔ مگر اس کیفیت سے نکلنے کے لیے بھی سوچ اور عقل کی لاٹھی پکڑنے کے بجائے گھبراہٹ میں ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت نہیں جاتی اور پھر بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے پڑنے کے سبب اپنی ہی بنائی دلدل میں دھنسنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ شائد زوال اور عروج کا چکر یہی ہے۔
میں شائد لکھنا چاہتا تھا کہ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بائیں بازو کے خلاف اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور اپنے کان خود چیک کرنے کے بجائے کسی اور کے کہنے پر کان چھڑانے کے لیے کتے کے پیچھے دوڑتی رہی تو پھر دائیں بازو کے خلاف کوئی متبادل قوت (کاؤنٹر فورس) یا جوابی نظریہ (کاؤنٹر نیریٹو) باقی نہ رہا۔
مزید یہ ہوا کہ مخلوط المذاہب مشرقی پاکستان ( بیس فیصد غیر مسلم اقلیت ) کی موجودگی سے پاکستانی سماج میں رواداری و روشن خیالی کا جو تھوڑا بہت توازن تھا اس کی بھی سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے بعد وجود میں آنے والے نئے پاکستان کو ضرورت نہ رہی۔ یوں وفاقی و سماجی ترازو کے سیاسی و مذہبی پلڑے پوری طرح ایک طرف کو جھک گئے۔
اب سی سا کے ایک جانب صرف دایاں بازو ہے اور دوسری جانب کے پھٹے پر ریاست اور اس کے لوگ بیٹھے ہوا میں جھول رہے ہیں۔ خوشی خوشی چڑھ تو گئے۔ اب خوشی خوشی اتارے کون؟
اپنی مرضی کا توازن ایجاد کرنے والوں اور ان کے مددگاروں کے ساتھ اکثر یہی ہوتا آیا ہے۔ مگر انسان بہت سخت جان ہے۔ اسے ہلکا نہ لیا جائے پلیز۔ ایک دن توازن پھر بحال ہوجائے گا دوبارہ غیر متوازن ہونے کے لیے۔ آخر سرکل آف لائف بھی تو چلنا ہے۔