حالانکہ ڈچ سائنسداں بتا چکے ہیں کہ کورونا کی نئی قسم اومیکرون ہفتوں پہلے نیدر لینڈز میں ظاہر ہو چکی تھی۔ حالانکہ بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ماہرین کہہ رہے کہ اومیکرون ان کے ہاں مہینے بھر سے موجود ہے۔
مگر جب جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں نے ڈیڑھ ہفتے پہلے دنیا کو کورونا وائرس کی اس نئی شکل کے بارے میں اپنے سائنسی مطالعے کی روشنی میں خبردار کرنے میں پہل کی تو دنیا نے جنوبی افریقہ کے ماہرین کا شکریہ یوں ادا کیا کہ وہاں سے آنے والی تمام پروازیں معطل کر دی گئیں۔ اسے کہتے ہیں بندر کی بلا تویلے کے سر۔ اسے کہتے ہیں جیہڑا بولے اوہی کنڈا کھولے۔
تادمِ تحریر اومیکرون تیس سے زائد ممالک میں ظاہر ہو چکا ہے اور جن ممالک کو اس وائرس کے سبب سفری بائیکاٹ کا سامنا ہے ان میں نمیبیا، زمبابوے اور موزمبیق بھی شامل ہیں۔ حالانکہ تینوں ممالک میں اب تک اومیکرون کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔ مگر تینوں چونکہ جنوبی افریقہ کے ہمسائے ہیں اس لیے انھیں بھی رگڑ دیا گیا۔
یار لوگ اس امتیازی سلوک کو کالے گورے کے فرق سے جوڑ رہے ہیں مگر اس کا تعلق تعصب سے زیادہ زائد از ضرورت خوف سے جوڑنا فی الحال مناسب رہے گا۔ کیونکہ یورپ اس وقت کوویڈ کی چوتھی لہر کی زد میں ہے۔ اس لہر سے سب سے زیادہ متاثر جرمنی بتایا جاتا ہے اور یہ لہر امیکرون کی دریافت سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ اومیکرون کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جس ملک (جنوبی افریقہ) نے خوش نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وائرس کی خبر دی اسی کی شامت آ گئی۔
اگرچہ کورونا کی تمام اقسام نے گزشتہ دو برس میں کرہِ ارض کے ہر امیر غریب سے یکساں سلوک کیا ہے مگر ویکسین سامنے آتے ہی خود غرضی کے وائرس نے کورونا کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کا کھلا اعتراف سابق برطانوی وزیرِ اعظم اور عالمی ادارہِ صحت کے اعزازی سفیر گورڈن براؤن کے پچھلے ہفتے کے ایک مضمون میں مل سکتا ہے۔
بقول گورڈن براؤن اب تک پانچ ملین کوویڈ اموات ہو چکی ہیں اور اگلے برس بھی اتنی ہی ہلاکتیں متوقع ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر کوویڈ کے مصدقہ متاثرین دو سو ساٹھ ملین بتائے جا رہے ہیں۔ نئے برس کے اختتام تک یہ تعداد چار سو ساٹھ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
گورڈن براؤن کہتے ہیں کہ اگرچہ سائنسی تحقیق اور مصنوعات سازی کی بے پناہ ترقی کے طفیل ہم اب تک کوویڈ ویکسین کی بارہ ارب خوراکیں بنا چکے ہیں۔ اور یہ ویکسینی ذخیرہ اس دنیا کے ہر بالغ انسان کے لیے کافی ہے۔ پھر بھی حالت یہ ہے کہ انتہائی غریب ممالک کے پچانوے فیصد بالغوں تک اس ویکسین کی تاحال رسائی نہیں ہو سکی۔ شاید یہ اب تک کی سب سے عظیم عالمی ناکامی ہے۔
عالمی ادارہِ صحت نے ہدف مقرر کیا تھا کہ موجودہ دسمبر کے اختتام تک دنیا کی چالیس فیصد بالغ آبادی کی ویکسینیشن ہو جانی چاہیے۔ مگر بیاسی ممالک اس ہدف سے بہت پیچھے ہیں۔ شاید ان میں سے بہت سے اگلے چار سے پانچ ماہ میں اس کے قریب پہنچ سکیں۔ گذرے جون میں امیر صنعتی ممالک کی جی سیون چوٹی کانفرنس نے یہ عزم باندھا کہ انیس سو بائیس کے اختتام تک مکمل عالمی ویکسینیشن کا ہدف حاصل ہو جائے گا۔ مگر حالات اور رفتار بتاتے ہیں کہ ہدف اور عمل میں فرق گھٹنے کے بجائے اور بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک جانب یہ حال ہے کہ امیر ممالک کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہو چکی ہے دوسری طرف غریب ممالک میں ویکسینیشن کی اوسط آج بھی ایک سے پانچ فیصد کے درمیان ہے۔ امیر ممالک میں جن چھ افراد کو ویکسین بوسٹر (تیسری خوراک) لگ رہا ہے اس کے مقابلے میں غریب ملک کے بیشتر شہری اب بھی ویکسین کی پہلی خوراک کے منتظر ہیں۔ آج بھی براعظم افریقہ کے نوے فیصد ہیلتھ ورکرز بغیر ویکسینیشن کام کر رہے ہیں۔ افریقہ کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے مگر تاحال افریقی یونین چار سو ملین سنگل شاٹ اور ایک سو دس ملین ڈبل شاٹ ویکسین خوراکیں ہی خرید پائی ہے۔
جہاں تک خود غرضی کی انتہا کا معاملہ ہے تو نواسی فیصد ویکسین پیداوار بیس امیر ترین ممالک کے قبضے میں ہے۔ اگلے چند ماہ میں جو ویکسین خوراکیں تیار ہوں گی ان کی بھی اکہتر فیصد پیداوار کا ان امیر ممالک نے پیشگی سودا کر لیا ہے۔ امریکا نے ترقی پذیر ممالک کو جتنی ویکسین خوراکیں عطیہ کرنے کا وعدہ کیا تھا اس پر اب تک بائیس فیصد عمل ہوا ہے۔ جب کہ یورپی یونین وعدہ کردہ عطیے کی غریب ممالک کو منتقلی کا پندرہ فیصد، برطانیہ دس فیصد اور کینیڈا پانچ فیصد ہدف حاصل کر سکے ہیں۔
ویکسین کی بین الاقوامی تقسیم کی ذمے دار ایجنسی کو ویکس کا ہدف تھا کہ اس ماہ کے آخر تک وہ ضرورت مند غریب ممالک تک دو ارب ویکسین خوراکیں پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مگر یہ ہدف مقررہ مدت میں بمشکل پچھتر فیصد تک ہی حاصل ہو پائے گا۔
امیر ممالک نے ویکسین کی کس حد تک زائد از ضرورت ذخیرہ اندوزی کی ہے؟ صحت کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ایرفنیٹی کا تخیمنہ ہے کہ دسمبر کے اختتام تک بیس امیر ممالک کے ویکسین ذخیرے میں سے ایک سو ملین خوراکیں زائد از میعاد ہونے کے سبب ضایع ہو جائیں گی۔
یہ ویکسین خوراکیں غریب ممالک تک بروقت پہنچانے کے بجائے ضایع کرنا زیادہ آسان سمجھا جا رہا ہے۔ ناقابلِ معافی اخلاقی دیوالیہ پن کی اس انتہا کو وہی ممالک چھو رہے ہیں جو خود کو سب سے زیادہ مہذب اور انسان دوست کہہ کر ہم گنوار ممالک کے زخموں پر مسلسل نمک چھڑکنے کے بھی ماہر ہیں۔
اس اخلاقی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی صحت کا انتظامی ڈھانچہ بالکل ناکافی ہے۔ اگر اس طوائف الملوکی سے نجات حاصل کرنا ہے اور مستقبلِ قریب میں ممکنہ عالمی وباؤں سے مشترکہ طور پر نمٹنا ہے تو پھر موجودہ عالمی صحت نظام کی فیصلہ سازی کے پورے ڈھانچے کو ازسرِ نو استوار کرنا ہوگا۔
یہ کوئی ناممکن بات نہیں کیونکہ تمباکو نوشی کے مضر اثرات روکنے کے لیے تمباکو کی طلب اور رسد کنٹرول کرنے کا ایک عالمی معاہدہ پہلے سے موجود ہے۔ عالمی تجارتی ادارے (ڈبلیو ٹی او) کے رکن ممالک اس ادارے کے فیصلوں پر لازماً عمل کرنے کے پابند ہیں اور ڈبلیو ٹی او کی ایک اپیل عدالت بھی ہے جس کے فیصلے فریقین پر لازم ہیں۔ اسی طرز پر عالمی ادارہِ صحت کو مزید بااختیار بنا کر صحت سے متعلق فیصلے بھی پوری عالمی برادری پر کیوں نافذ نہیں ہو سکتے؟ اس کام کے لیے کیا کوویڈ سے بڑی مصیبت کے نزول کا انتظار ہے؟