پاکستان کی بائیس کروڑ میں سے ساڑھے سات کروڑ آبادی کی رسائی براڈ بینڈ یا موبائل فون انٹرنیٹ تک ہے۔ یعنی آبادی کا لگ بھگ چھتیس فیصد حصہ انٹرنیٹ کے دائرے میں ہے۔
اگر سرکاری ذہن سے سوچا جائے تو گویا ہر تیسرا شہری کسی نہ کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے براہ ِ راست فحاشی، فرقہ واریت، ملک دشمنی، سماجی گمراہی اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کی زد میں ہے۔ لہذا یہ ضروری سمجھا گیا ہے کہ ان معصوم شہریوں کو جو اچھے بھلے منفی اور مثبت میں تمیز کرنے سے عاری ہیں۔ انھیں خطرناک و منفی مواد سے بچانے کے لیے موجودہ نافذ قوانین کے اوپر مزید حفاظتی ضابطوں کی ایک اور تہہ چڑھا دی جائے تاکہ ڈیجیٹل صارفین کو ملاوٹ و گمراہی سے پاک خالص سوشل میڈیائی مصنوعات میسر آ سکیں اور یوں ان کی ذہنی و قومی صحت کا قبلہ درست رہے۔
چنانچہ اکیس جنوری کو وفاقی کابینہ نے خاموشی سے کچھ اضافی ضابطوں کی منظوری دے کر انھیں نافذ قوانین کا حصہ بنا ڈالا۔ مجھے ان اضافی حفاظتی اقدامات سے قطعاً کوئی مسئلہ نہیں۔ بلکہ خوشی ہے کہ ریاست نے کسی شعبے سے تو آلودگی کے خاتمے کی ابتدا کی۔ آج ریاست کا سارا زور ثقافتی و سماجی اقدار سے ہم آہنگ خالص ڈیجیٹل مصنوعات تک ہر شہری کی رسائی پر ہے۔ اس کے بعد انشااللہ اشیائے خور و نوش میں ہونے والی ملاوٹ کے قلمع قمع پر بھر پور توجہ دی جائے گی تاکہ ڈیجیٹل ملاوٹ سے پاک مصنوعات کے ذریعے جس جسم میں صحت مند ذہنی نشو و نما ہو رہی ہے اس جسم کو بھی غذائیت سے بھرپور حلال غذا میسر آتی رہے۔
اب جب کہ ہمارا قومی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا الحمدللہ ریاستی بیانیے کی افادیت کا قائل ہو گیا ہے اور اس نے بھانت بھانت کے بھاشن دینے اور بے پر کی اڑانے کے بجائے بے بال و پر اڑنا سیکھ لیا ہے۔ تو کیوں نہ ایک قدم اور آگے بڑھ کے من و تو کا امتیاز بھی ختم کر دیا جائے اور تمام محمود و ایاز جو کہ پہلے ہی سے ایک صف میں کھڑے ہو چکے ہیں اپنے الگ الگ ناموں سے نجات پا کر ایک ہی قومی و یک جہت لڑی میں پرو دیے جائیں۔ یعنی کیا ضرورت ہے چینلوں کو ڈیسپریس، مرو، ایچ ٹو، سیالا، انہالا، ایکس وائی زی جیسے نام رکھنے کی۔ اس سے نفاق کی بو آتی ہے۔ جب یہ ایک ہی ملک اور قوم کے نمایندہ ہیں تو نام بھی یکساں ہونے چاہیں، نیشنل چینل ون، نیشنل چینل ٹو، تھری، فور، فائیو سکس سے نیشنل چینل نائنٹی نائن تک۔
بالکل اسی طرح ہمارا ڈیجیٹل نظریہ بھی یک رخا ہونا چاہیے۔ ہمارا اپنا قومی پوگل سرچ انجن ہونا چاہیے اور ہمارے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی۔ جیسے فیس بک کے مقابلے میں سیف بک، یو ٹیوب کے برعکس پی ٹیوب، انسٹا گرام کے بجائے انسٹنٹ گرام، ٹک ٹاک کے بجائے گڈ ٹاک، لنکڈ ان کیوں لنکڈ آؤٹ کیوں نہیں، ڈیلی موشن کیوں ڈیلی پرموشن کیوں نہیں، ٹویٹر کی محتاجی کیوں ہم اپنا ٹویٹر غٹر غوں کے برانڈ نام سے کیوں نہیں متعارف کروا سکتے۔
رفتہ رفتہ حالات بھی خیر سے اسی طرف جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کو ایک نظریاتی مملکت کے شایانِ شان کرنے والے نئے قوانین و ضوابط کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ شائد زیادہ تر بے لگام مغرب زدہ ڈیجیٹل کمپنیاں اپنی سرگرمیوں کو پاکستانی اقدار سے ہم آہنگ نہ کر سکیں، شائد وہ تین ماہ کے اندر اپنے مقامی دفاتر اسلام آباد میں نہ کھول سکیں، شائد وہ لائیوا سٹریمنگ کو رئیل ٹائم میں سنسر کرنے سے معذوری کا اظہار کر دیں۔ شائد وہ اپنے صارفین کا ڈیٹا متعلقہ قومی اداروں سے شئیر کرنے میں دقت محسوس کریں لہذا چار و ناچار ریاست کو ان تمام ڈیجیٹل کمپنیوں کی من مانی روکنے اور قومی اقدار و اقتدارِ اعلی کے تحفظ کی خاطر پاکستان میں ان کے آپریشن پر پابندی لگانا پڑے گی۔
یہ درست ہے کہ ایسی صورت میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس سکتا ہے۔ یعنی موجودہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پاکستانی بے روزگار نوجوان ای کامرس کے جو تجربے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے دیس نکالے یا عارضی پابندی کی صورت میں متاثر ہو سکتے ہیں۔ عالمی ڈیجیٹل کمپنیوں کی جانب سے تازہ پاکستانی قوانین نہ ماننے کی صورت میں حکومت کی ای کامرس کے فروغ کی پالیسی کو بھی وقتی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مگر ہمیں ایسی دنیاوی مشکلات سے گھبرانا نہیں ہے۔ ویسے بھی دنیا بے ثبات اور عارضی ہے۔ اصل سکون تو قبر میں ہے۔
کیا خلیجی ریاستوں میں وٹس ایپ کے استعمال پر پابندی سے فضا میں آکسیجن کم ہو گئی؟ کیا ایران میں انٹرنیٹ کے عمومی استعمال پر پابندی اور ڈجیٹل پلیٹ فارمز تک محض چند فیصلہ سازوں کی خصوصی رسائی سے باقی دس کروڑ ایرانیوں کا دم گھٹ گیا؟ کیا چین میں غیرملکی کے بجائے ملکی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک ہر چینی باشندے کی رسائی نے اس کی زندگی میں کوئی خلش چھوڑ دی اور تو اور شمالی کوریا کے عام آدمی نے انٹرنیٹ کا نام بھی نہیں سنا تو کیا وہاں روزمرہ زندگی مفلوج ہو گئی ؟
ہمارے ہاں بیس برس پہلے تک محض ایک فیصد آبادی کی سوشل میڈیا تک رسائی تھی۔ تو کیا ہمارے ہاں صبح نہیں ہوتی تھی یا دن چوبیس کے بجائے اڑتالیس گھنٹے کا تھا یا ہم ایک دوسرے سے ذاتی و سماجی رابطے میں نہیں تھے؟
تب آج کے مقابلے میں فحاشی، کرپشن، غداریت، ملک دشمنی، دہشت گردی، فرقہ واریت بھی کم تھی، ایمانداری بھی زیادہ تھی، لوگ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، سستائی بھی تھی، اشیا میں ملاوٹ کی وبا بھی نہ تھی، نوجوان گھر سے نکلتے ہی آنکھ نیچی کر لیتے تھے اور غلطی سے اگر صنفِ ممنوعہ پر نگاہ پڑ بھی جاتی تو بارِ دگر نہیں پڑنے دیتے تھے۔
جولائی دو ہزار اٹھارہ تک بھی سوشل میڈیا قومی و سماجی لحاظ سے اتنا نقصان دہ نہ تھا۔ مگر پچھلے ڈیڑھ برس سے سوشل میڈیا کو جانے کیا ہو گیا کہ اس نے انت مچا دیا۔ تب سے سوشل میڈیا ہر ممکنہ برائی اور ملک دشمنی کا منبع ہے۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ فی زمانہ سوشل میڈیا کے بغیر نہ ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ہی تیز رفتار رابطہ کاری۔ مگر یہ ترقی و رابطہ کاری ہمیں قومی مفاد و اقدار کی بیخ کنی کی قیمت پر ہرگز ہرگز منظور نہیں۔ پھٹ پڑے وہ سونا کہ جس سے ٹوٹیں کان۔
مجھے امید ہے کہ جہاں آج تک کوئی حکومت کامیاب نہ ہو سکی وہاں مقتدر قومی اداروں کی بھرپور مدد کے ذریعے، آپا فردوس عاشق اعوان کا محکمہ اطلاعات، پی ٹی اے، پیمرا، ایف آئی اے وغیرہ بے باک و بے غیرت ڈیجیٹل میڈیا کے سامنے سدِ سکندری بن کر بائیس کروڑ سیدھے سادے معصوم پاکستانیوں کا ذہنی تحفظ کرنے میں یقیناً کامیاب ہو جائیں گے۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو اور ہمارا بھی۔