سرکاری آنکڑوں کے مطابق اس وقت پاکستان میں نابالغ یتیم بچوں کی تعداد بیالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مگر ان میں سے کتنے اپنے دیگر رشتے داروں کے زیرِکفالت ہیں، کتنوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری ریاستی و غیر ریاستی فلاحی اداروں اٹھا رہے ہیں اورکتنے اپنی زندگی کو خود لڑھکانے پر مجبور ہیں۔ اس بابت جتنے منہ اتنی باتیں۔
جو بچے اپنا بوجھ خود اٹھا رہے ہیں ان میں بارہ سے پندرہ لاکھ کے درمیان پاکستانی بچے اسٹریٹ چلڈرن یعنی بڑے اور درمیانے پاکستانی شہروں کی سڑکوں اور گلیوں میں رہنے سہنے پر مجبور ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کو خدشہ ہے کہ جس طرح کورنا قومی معیشتوں کو کھدیڑ رہا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک میں غربت کے تناسب میں جلد ہی اور اضافہ ہوگا اور خدشہ ہے کہ لاوارث بچوں کی تعداد بھی اسی شرح سے بڑھے گی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اسٹریٹ چلڈرن سے متعلق اقوام متحدہ کے پاکستانی ریکارڈ میں وہ ہزاروں افغانی بچے بھی شامل ہیں جو بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں کچرہ چننے کا کام کرتے ہیں۔
چونکہ یہ بچے لاوارث ہیں لہذا بیگار کرانے والے، بھیک منگوانے والے، جنسی پیشہ کرانے والے، انسانی اعضا کے کاروباری، خطرناک ملازمتوں میں کسی بھی انسان کو اندھا دھند جھونکنے والے اور بندھوا مزدوروں کی مجبوریاں رہن رکھنے والے جتنے بھی آدم خور بصورتِ آدم گھوم رہے ہیں ان سب کا سب سے آسان اور مرغوب نشانہ ایسے ہی بے یار و مددگار لاوارث بچے ہیں کہ جن کے مستقبل کے بارے میں حکومتیں لگ بھگ غیر جانبدار ہیں۔
ان بچوں کا کوئی مستقل رہائشی ٹھکانہ نہیں تو نادرا میں اندراج بھی نہیں، قانونی شناخت نہیں تو تعلیم، صحت اور دستوری تحفظ کے دروازے بھی نہیں کھل سکتے۔ ان تحفظات کے بغیر گویا یہ بچے سڑک پر رکھی سلادِ عام ہیں جن پر کوئی بھی کتا منہ مار سکتا ہے یا ان بچوں کو بھی مار سکتا ہے۔
ان لاکھوں بچوں میں سے چند سو خوش قسمت بچے بھی ہیں جن کی دیکھ بھال کوئی پیشہ ورانہ ایماندار فلاحی تنظیم کر رہی ہے۔ اب ان کا شناختی کارڈ بن سکتا ہے اور شناختی کارڈ پر فلاحی ادارے کے سربراہ یا اس کے نمایندے کا نام بچے کے سرپرست کے طور پر درج کیا جا سکتا ہے۔
یہ راستہ دو ہزار چودہ میں سپریم کورٹ کے ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں ہموار ہوا۔ جب مرحوم عبدالستار ایدھی کی ایک درخواست پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے رولنگ دی کہ کسی رجسٹرڈ فلاحی ادارے کا سرپرست اپنے زیرِ کفالت بچوں کا نام بی فارم میں لکھوانے کا حق رکھتا ہے اور جب قانونی بلوغت کے بعد اس بچے کے شناختی کارڈ پر بھی بطور سرپرست فلاحی ادارے کے سربراہ یا اس کے کسی نامزد شخص کا نام درج کیا جائے۔
چنانچہ اس عدالتی حکم کے نتیجے میں لاوارث زیرِکفالت بچوں کی قانونی رجسٹریشن کا دستاویزی راستہ کھل گیا۔ سیکڑوں بچوں کے بی فارم اور شناختی کارڈ پر بطور سرپرست عبدالستار ایدھی کا نام درج ہے۔
مگر اس رولنگ کا نظری فائدہ تو آگے چل کر بے پناہ ہے مگر فی الحال عملی فائدہ آٹے میں نمک جیسا ہے۔ کیونکہ لاوارث بچوں کے سلسلے میں اس وقت پاکستان میں جو درجنوں تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کی مہارت الگ الگ شعبوں میں ہے۔ کچھ تنظیمیں بے سہارا بچوں کو قانونی معاونت یا ہیلپ لائن کی سہولت فراہم کررہی ہیں۔ کچھ اداروں کا فوکس صرف بھٹہ مزدوروں یا جبری مشقت کے شکار بچوں کی حالتِ زار کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر کے فنڈنگ کے ذریعے بہتر بنانے تک محدود ہے۔
کچھ تنظیموں کا دعوی ہے کہ وہ لاوارث بچوں کے مسائل کے بارے میں سماج کے بااثر و باخبر طبقات کو باشعور بنانے کے مشن پر ہیں۔ کچھ تنظیمیں صنفی اعتبار سے فلاحی کام کر رہی ہیں۔ مثلاً کسی نے خود کو نابالغ بے سہارا بچیوں کے مسائل کے لیے وقف کر رکھا ہے تو کسی کی توجہ کا مرکز نوعمر لڑکے ہیں۔ کچھ تنظیمیں یا حضرات ایسے بچوں کی نفسیاتی مدد یا کاؤنسلنگ کا کام بھی کر رہے ہیں۔
مگر بچے جس عمر میں بھی بے سہارا ہوتے ہیں، انھیں سب سے پہلے کسی مہربان فرشتہ صفت کے دستِ شفقت کی طلب ہوتی ہے جو انھیں کھانا، کپڑے اور تحفظ فراہم کر سکے۔ اس اعتبار سے بھی ایدھی فاؤنڈیشن سب سے بڑا غیر سرکاری ادارہ ہے جس کی پناہ گاہوں میں لگ بھگ بارہ سو بچے رہتے ہیں، ان میں سات سو لڑکے اور پانچ سو لڑکیاں شامل ہیں۔
اب ذرا تصور کریں کہ پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر جو بارہ سے پندرہ لاکھ بے سہارا بچے اس وقت زندگی کاٹ رہے ہیں۔ اگر ان میں سے زیادہ سے زیادہ دس ہزار بچے ہی ایدھی سمیت کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری ادارے کے زیرِِ کفالت ہیں تو پندرہ لاکھ بے خانماں بچوں میں سے دس ہزار کتنے زیرو زیرو زیرو فیصد بن پائیں گے۔ اور خواب ہم دیکھ رہے ہیں جدید ریاستِ مدینہ کے قیام کا اور ایک فلاحی اسلامی سماج بننے کا۔
مگر اس بابت جتنی اور جیسی بھی قانون سازی ہوئی ہے یا عدالتی فیصلے آئے ان سے ایک بہتر نظیر تو قائم ہوئی ہے مگر لاکھوں لا وارث بچے آج بھی ایسی کسی دستاویزی سہولت کے خود بخود حقدار نہیں جو اس ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس بارے میں انسانی حقوق سے متعلق سرکردہ تنظیموں کی مشاورت سے اگر کوئی قانونی خلا یا سقم ہے تو اسے پر اور دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ لاوارث بچے بھی قومی سلامتی کی زنجیر کی اہم کڑی ہیں۔ انھیں آسمانی چھتری تلے یوں ہی چھوڑ دینے کا مطلب جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد گروہوں کو سرسبز چارے کی مسلسل سپلائی یقینی بنانے جیسا ہے۔
لیکن بچوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کی قسمت کے بارے میں اگر آپ سوچنے بیٹھیں تو محض یتیم یا لاوارث بچہ ہونا بھی خوش قسمتی جیسا محسوس ہوگا۔ یہ بدقسمت بچے اور بچیاں کون ہیں۔ اس بابت اگلے کالم میں کچھ عرض کیا جائے گا۔