اس وقت نہ ملک کی حالت اتنی قابلِ رحم ہے، نہ نظامِ انصاف کی، نہ معیشت کی، نہ امن و امان کی، نہ طرزِ حکمرانی کی بلکہ سب سے قابلِ رحم ہے حزب اختلاف۔
جتنی بھی قابلِ ذکر اپوزیشن جماعتیں ہیں ان کی قیادت کو نہ اپنے ماضی کا اندازہ ہے، نہ حال کا، نہ مستقبل کا۔ کہنے کو ان کی تعداد بیسیوں میں ہے۔ مگر یہ ایسی بھیڑ ہے جس میں ہر بھیڑ تنہا ہے۔ خالی الذہن ہے مگر بزعمِ خود بقراط ہے۔ جسم موجود ہے مگر بصورتِ سایہ اور اس سائے پر بھی کسی آسیب کا سایہ۔ دائرے میں چلنے والی اس بھیڑ کو گمان یہ ہے کہ وہ خطِ مستقیم میں چل رہی ہے۔
ان سب نے پلان اے بی سی ڈی کا نام تو سن رکھا ہے مگر پلاننگ کیا ہوتی ہے؟ اسے جاننے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔ انھیں تو یہ تک نہیں معلوم کہ ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں دس ہزار نہیں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جو کبھی متحرک تھیں، ان کی رگوں میں سرخ گرم خون بھی دوڑتا تھا۔ ان کے اسلحہ خانے دلیل کے تیروں اور عمل کے بھالوں سے بھرے تھے۔ اس اسلحہ خانے کو ماہر سیاسی کارکنوں کی سپاہ استعمال کرتی تھی اور اپنی ہنر مندی اگلی نسل کو بھی منتقل کرتی تھی۔ سرخ و سبز، دائیں اور بائیں سے قطع نظر ان جماعتوں کے ہاں اندرونی مباحثے ہوتے تھے، خود تنقیدی کا چلن تھا۔ یہ پڑھتے بھی تھے اور پڑھنے پر زور بھی دیتے تھے۔ ان کی قیادت کی صفِ اول، دوم اور سوم میں صرف وہی کھڑا ہو پاتا تھا جس کے سینے پر کسی بھی چھوٹی یا بڑی قربانی کا کم ازکم ایک بیج ضرور آویزاں ہو۔
مگر اب یہ وہ پھٹیچر ماڈل کی مشینیں ہیں جن کے سر میں صرف پرانے نعرے، ماضی میں دی گئی قربانیوں کے قصے اور گزرے زمانے کی تقریری و تحریری اقتباسات ٹوٹے پرانے ریکارڈ کی طرح بجتے بجتے گھس چکے ہیں۔
زمانہ کدھر سے کدھر چلا گیا۔ انھیں اس سے نہ غرض ہے نہ پرواہ۔ ان جماعتوں کے بے لوث تربیت یافتہ کارکن کہاں گئے کچھ پتہ نہیں۔ یہ وہ سپاہ ہے جس میں اب سب افسر ہیں سپاہی ایک بھی نہیں۔ جنھیں یہ آج اپنا سیاسی کارکن کہہ کر متعارف کرواتے ہیں وہ بے چارے اندھے عقیدت مند یا پھر دولے شاہ کے چوہے بن کر ان جماعتوں میں سروائیو کر رہے ہیں۔ یا پھر بخشو ہیں جو محض اور محض وفاداری کی میرٹ پر تھوڑا بہت صلہ پا لیتے ہیں۔
یہ میں کیا اول جلول بک رہا ہوں؟ یہ اول جلول ہی سہی مگر آپ ہی بتائیے کہ اگر سیاست کا جنگل اس قدر ویران و دیوالیہ نہ ہوتا تو کیا موجودہ ٹولہ ہماری اور آپ کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والی مسند اور بنچوں تک پہنچ پاتا؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب ہمارا کیا دھرا نہیں بلکہ ہماری سیاست اور اقدارِ حکمرانی کو ایک منصوبہ بندی کے تحت ملیامیٹ کیا گیا ہے۔ اگر آپ اتنے ہی بے بس ہیں تو پھر راستہ کیوں نہیں چھوڑتے، گھر جا کر کیوں نہیں بیٹھتے، نئے لوگوں کے لیے جگہ خالی کیوں نہیں کرتے؟
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے " لالچ مستقل غلامی ہے" زبان ہوتی ہے پر لالچ گونگا کر دیتی ہے، پاؤں ہوتے ہیں مگر لالچ بیڑی بن جاتی ہے، دماغ ہوتا ہے مگر لالچ فولادی کنٹوپ کی طرح سر پے بیٹھ جاتی ہے، آنکھیں ہوتی ہیں مگر لالچ کے کھوپے بصارت یرغمال بنا لیتے ہیں۔ ہاتھ ہوتے ہیں مگر وہ اپنی ہی بغل میں دابنے کے کام کے رہ جاتے ہیں۔ کان ہوتے ہیں مگر صرف وہی آواز سن سکتے ہیں جو بڑی سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی رعایت دینے پر قادر ہو۔ زبان ہوتی ہے مگر وہ صرف ذاتی مفاد کا کونڈا یا تلوا چاٹنے تک محدود ہو جاتی ہے۔ دکھنے میں گوشت پوست کا انسان ہی نظر آتا ہے مگر لالچ اسے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے روبوٹ میں بدل دیتی ہے۔
چھوڑیں اس قصے کو کہ موجودہ حکمران پارٹی کیسے کیسے لطائف سے بھرپور ہے۔ یہ بتائیے کہ آپ جو خود کو سنجیدہ سیاستداں سمجھتے ہیں آپ کیسی داخلہ یا خارجہ پالیسی چاہتے ہیں؟ آپ کے پاس ریاستی اداروں کے درمیان توازن اور دائرے برقرار رکھنے کے لیے کیا قابلِ عمل منصوبہ ہے؟
یہ ٹھیک ہے کہ آپ جبری گمشدگیوں، بالائے قانون وارداتوں، ادارہ جاتی کرپشن، سیاست میں غیر سیاسی عناصر کی مداخلت، کنٹرولڈ انتہا پسندی، پارلیمنٹ کی بے توقیری، بیک روم فیصلوں کی روایت، بنیادی آزادیوں کو حیلے بہانوں سے محدود کرنے جیسے بیسیوں مسائل کو نہ اقتدار میں رہ کر ٹھیک کر سکے نہ شائد آیندہ اقتدار میں آ کر ٹھیک کر سکیں۔ مگر ان میں سے کوئی ایک مسئلہ جس پر کل یا آج آپ نے کبھی دو ٹوک موقف اختیار کیا ہو اور پھر اس کی قیمت بھی چکائی ہو۔
آخر ہم آپ پر کیوں اعتبار کریں جب ہمیں اس پر ہی اعتبار نہیں کہ آپ بحیثیت حزبِ اختلاف جو اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور عوام کی محبت میں واری صدقے ہوئے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی انھی باتوں پر قائم رہیں گے اور پہلے کی طرح برق رفتاری سے اپنی کینچلی نہیں اتاریں گے اور پہلے کی طرح یہ نہیں فرمائیں گے کہ ہمارے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں جو ہم راتوں رات سب کچھ بدل دیں۔ یہ الہ دین کا چراغ تب ہی آپ کے ہاتھ میں کیوں ہوتا ہے جب آپ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں اور جیسے ہی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو پھر چراغ کے بجائے اپنا ہی ماتھا کیوں رگڑنا شروع کر دیتے ہیں؟
ہاں موجودہ حکومت سیاسی و انتظامی بلوغت سے عاری ہے۔ مگر جب اس ملک کی باگ ڈور بالغوں کے ہاتھ میں تھی تب کتنے چاند چڑھائے گئے؟ تب کونسی عظیم مثالیں قائم کی گئیں جو ہم پچھلوں کو یاد کر کرکے آہیں بھریں۔ لہذا ہمیں بار بار مت ڈرائیے کہ بھینس بھینس تجھے چور لے چلے۔
آسمان یہ منظر دوبارہ دیکھے گاکہ کل تم پھر پارلیمنٹ میں جاؤ گے۔ نہ تمہارا قلم ہوگا نہ کاغذ مگر اس قلم سے اس کاغذ پر دستخط البتہ تمہارے ہی ہوں گے اور اس کے بعد پھر تم نم آنکھوں کے ساتھ بے بس صورت بنائے باہر نکلو گے اور ایک بار پھر کہو گے " یقین کریں باجی میں مجبور تھی"۔
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
انجمن میں یہ میری خاموشی
بردباری نہیں ہے وحشت ہے
ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں میرا غم ہی میری فرصت ہے
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے
(جون ایلیا)