( چوالیس سالہ یووال نوح ہراری اسرائیل کی ہیبرو یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں اور ان کا شمار جواں فکر مورخوں کی نئی عالمی کھیپ میں ہوتا ہے۔ تاریخی ارتقا اور مستقبل کے موضوع پر ان کی تین معرکتہ الاآرا کتابیں شایع ہو چکی ہیں، سیپینز (بنی نوع انسان کی تاریخ )، ہومودیوس ( مستقبل کی مختصر تاریخ ) اور اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق۔ ان کتابوں کے چالیس سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں کورونا کی وبا کے تعلق سے یوال کا ایک مضمون " کیا کورونا موت و حیات کے بارے میں ہمارا طرزِ عمل بدل سکے گا" شایع ہوا۔ پیشِ خدمت ہیں اس مضمون کے اقتباسات )۔
" دو صدی پہلے انسان کی اوسط عمر چالیس برس سے کم تھی۔ آج بہتر برس تک پہنچ گئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اوسط عمر کی شرح اسی برس سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ایک تہائی بچے سنِ بلوغت نہیں دیکھ پاتے تھے۔ ہیضہ، چیچک، خسرہ جیسی بیماریاں نوعمری کی موت کا عام سبب تھیں۔
دو سو برس پہلے تک بلاامتیاز مذہب و ملت ہر جگہ یہ تجسس عام تھا کہ بعد از مرگ حیات کیسی ہوگی۔ آج یہ سوچ غالب ہے کہ جو زندگی یہاں میسر ہے اسے کیسے طویل اور معیاری بنایا جا سکتا ہے۔
مذاہب کو چھوڑ کے قوم پرستی واحد جدید نظریہ ہے جو زندگی کے مقابلے میں موت کو شاندار سمجھتا ہے۔ قوم پرستوں کا اعتقاد ہے کہ جو بھی ریاست اور قوم کی خاطر جان دیتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اجتماعی حافظے میں بس جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیسے معلوم ہوگا کہ کوئی شخص اجتماعی قومی حافظے کا حصہ بن گیا ہے اور کتنی نسلوں تک بنا رہے گا اور کب ذہن سے محو ہونے لگے گا؟
ہالی وڈ کے معروف ہدایت کار، فلم ساز، اداکار ووڈی ایلن سے پوچھا گیا کہ آپ کو کتنی امید ہے کہ آپ سینما بینوں کے دل میں ہمیشہ رہیں گے۔ ووڈی ایلن نے کہا اس بارے میں سوچنے کے لیے وقت ضایع کرنے کے بجائے میں اپنے موجودہ اپارٹمنٹ میں طویل عرصے رہنا زیادہ پسند کروں گا۔
اس وقت بیشتر دنیا میں اس وبا پر قابو پانے میں ناکامی پر غصہ بھی ہے مگر مکمل طور پر حوصلہ ہارنے کے بجائے ایک امید بھی ہے کہ کوئی نہ کوئی راستہ جلد ہی نکل آئے گا۔
جب لگ بھگ چھ سو برس پہلے یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو لوگوں کو جہاں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم تھا وہیں اس وبا کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے سبب یہ سوچ غالب تھی کہ انسان بے بس ہے، یہ بیماری نہیں خدا کا قہر ہے، شائد اسی وبا میں ہمارے لیے کوئی بہتری پوشیدہ ہو۔ جو لوگ اس میں مر گئے انھیں یقیناً اوپر کچھ نہ کچھ اجر ملے گا۔ چونکہ یہ عذاب ہے اس لیے علاج یا دوا کی جستجو کے بجائے سرتسلیم خم کرنا ہی بہتر ہے۔
مگر آج کا انسان قدرتی اور انسانی آفات کے بارے میں مختلف انداز میں سوچتا ہے۔ جیسے کسی ٹرین کے حادثے، بلند و بالا عمارت میں آتشزدگی زلزلے یا سمندری طوفان میں بڑے پیمانے پرہلاکتوں کا سن کر دھیان اوپر کے عذاب کی طرف نہیں بلکہ اس سمت جاتا ہے کہ یقیناً ریلوے نے مسافروں کے تحفظ سے غفلت برتی ہے یا بلدیہ آتشزدگی سے نمٹنے کے قوانین پر عمل نہیں کرا سکی تبھی تو اتنے لوگوں کی جان ضایع ہوئی۔ زلزلے یا سمندری طوفان کے بعد اگر حکومت فوری طور پر امدادی ٹیمیں بھیج دیتی تو سیکڑوں جانیں بچ سکتی تھیں۔ اب اکثر لوگ حادثات و آفات کو قسمت کا لکھا سمجھ کے صبر نہیں کرتے بلکہ جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اپنے نقصان کی بھرپائی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے متعلق سوچتے ہیں۔
اسی طرح جب انیس سو اسی کی دہائی میں ایچ آئی وی کی وبا یا اس کے بعد ایبولا، سارس، سوائن فلو یا برڈ فلو پھیلا تو بہت کم لوگوں کا دھیان کسی نامعلوم طاقت کی جانب گیا۔ زیادہ تر نے یہ سوال اٹھایا کہ جب ہمارا طبی علم و تحقیق اور کنٹرول کے وسائل پہلے سے کئی گنا بہتر ہیں تو ان وباؤں کو پھیلنے سے روکنے میں قصور وار کون ہے؟ یہ کوئی آسمانی قہر نہیں سراسر انسانی غفلت ہے۔
اور اب کورونا کے پھیلاؤ کے موقعے پر بھی آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ سوائے ایک مخصوص طبقے کے زیادہ تر ممالک ایک دوسرے پر مجرمانہ غفلت کا الزام لگا رہے ہیں اور سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ بحث یہ نہیں ہو رہی کہ یہ آسمانی یا زمینی عذاب ہے بلکہ بحث کا محور یہ ہے کہ ہمارا صحت کا ڈھانچہ اتنا کمزور کیوں نکلا اور آیندہ اسے اور مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
ماضی کے برعکس اس وقت ہماری امیدیں پروہتوں، پادریوں اور راہبوں سے اتنی زیادہ نہیں بلکہ ہمارے ہیرو ڈاکٹر، نرسیں اور سپر ہیرو وہ سائنسداں ہیں جو اس وقت کسی لیبارٹری میں اس کا توڑ نکالنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ دنیا کی ننانوے فیصد آبادی کو امید ہے کہ چند ماہ میں کوئی نہ کوئی علاج نکل ہی آئے گا اور سپر مین اور اسپائیڈر مین کی طرح کا کوئی کردار دنیا کو بچا لے گا۔ اس وقت سوال یہ نہیں پوچھا جا رہا کہ ویکسین کیسے بنے گی۔ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کب تک بنے گی۔
اس کے بعد ہمارے رہنماؤں کی عقل کا امتحان ہوگا کہ حسبِ سابق غلط ترجیحات پر پیسہ جھونکتے رہنا ہے یا پھر صحت کے شعبے کو اولین ترجیحات میں رکھنا ہے اور اسے اس منزل تک لے جانا ہے کہ دوبارہ کوئی وائرس یا بیماری ہماری غفلت کو اس طرح سے چیلنج نہ کر سکے۔
مگر یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم بھلے کتنی ہی ترقی کر لیں کوئی نہ کوئی غیر متوقع چیلنج یا وبا ہمیں ضرور آزمائش میں ڈالتے رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں خود کو ناقابلِ تسخیر ہونے کے اندھے زعم سے ہر وقت بچنا ہوگا۔ جیسے سیزر کے پیچھے پیچھے ہمیشہ ایک شخص چلتا تھا جس کا کام ہی یہ تھا کہ جہاں سیزر خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھنے لگے، یہ شخص اس کے کان میں کہے سیزر تم جتنے بھی طاقتور سہی مگر لافانی نہیں ہو۔
ہمیں سائنس پر یقیناًاعتماد کرنا چاہیے مگر انفرادی و اجتماعی اخلاقیات اور اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ رکھنے کی ذمے داری خود ہی اٹھانا پڑے گی۔ یہ کام کوئی روبوٹ ہمارے لیے نہیں کرے گا۔