بھارتی مسلمان جان سے مارنے سے کم نہیں ہوں گے۔ بدنامی زیادہ ہو گی۔ لہٰذا معاشی چوٹ دی جائے اور کاروباری و سماجی مقاطعے کی رسی سے گلا گھونٹا جائے۔ اس کے لیے کسی متنازعہ قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں۔ اکثریت کو زہریلے نظریے سے مسلح کردو۔ باقی وہ خود دیکھ لے گی (یہ ہے آر ایس ایس سے منسلک یا نظریاتی ہم آہنگی والے ذیلی گروہوں اور تنظیموں کی تازہ سوچ)۔
مثلاً اسی ماہِ اکتوبر میں درگا پوجا، لکشمی پوجا، کڑوا چوتھ اور نومبر میں دیوالی آ رہی ہے۔ چنانچہ دلی سے متصل یوپی کے علاقے گریٹر نوئیڈا میں بجرنگ دل نے پمفلٹ بانٹ دیے ہیں کہ تہوار کے دنوں میں گوشت کی دکانیں بند رکھی جائیں گی (گوشت کا کام مسلمان کرتے ہیں)۔ بظاہر یہ کوئی سرکاری حکم نہیں مگر مقامی ساجھے دار انتظامیہ بجرنگ دل کو کیسے چیلنج کر سکتی ہے۔
نوئیڈا کے مسلمان قصاب خوش قسمت ہیں کہ ان کی پٹائی نہیں ہوئی۔ متھرا شہر کو تو مقامی انتظامیہ نے شراب و کباب سے مکت قرار دے دیا ہے۔ گوشت لے کر شہر سے گذرنے والے دو مسلمانوں کو شائد اس پابندی کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ مکھ منتری یوگی ادتیا ناتھ کے سمرتھک لمڈوں نے دونوں بے وقوفوں کی جم کے ٹھکائی لگائی۔
ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں تسلیم علی ایک محلے میں جا کے چوڑیاں بیچ رہا تھا۔ ایک رہائشی نے نام پوچھ لیا۔ تسلیم علی نے ڈر کے مارے خود کا ہندو نام بتایا۔ مکینوں نے اسے مکوں لاتوں پر رکھ لیا اور علاقے میں آیندہ قدم رکھنے پر پابندی لگا دی۔ اجین سمیت کئی شہروں میں شرپسند لڑکے گروہ کی صورت گھومتے ہیں اور مسلمان ٹھیلے اور چھابڑی والوں سے جے شری رام کے نعرے لگواتے ہیں۔ ہچکچانے پر تشدد ہوتا ہے یا ٹھیلا الٹ دیا جاتاہے۔ کس میں جرات ہے کہ پولیس سے شکایت کرے۔
لکھنؤ میں ایک کوچوان سبز جھنڈا تانگے پر لگا کے گذر رہا تھا۔ کچھ لڑکوں کو شبہہ ہوا کہ یہ پاکستانی جھنڈا ہے۔ انھوں نے کوچوان سے کئی بار پاکستان مردہ باد کہلوایا تب جان چھوٹی۔ کان پور میں مقامی انتظامیہ نے گداگری کی وبا کے خلاف پندرہ روزہ مہم چلائی۔ مسلمان گداگر یا تو پکڑے گئے یا چمپت ہو گئے۔ ہندو گداگر اپنی جگہ جمے رہے (یہ واقعات سعادت حسن منٹو کے اقتباسات نہیں بلکہ گزشتہ ماہ میں ہونے والے متعدد واقعات کی محض چند جھلکیاں ہیں۔)
اکثر واقعات کی وڈیوز وائرل کی جاتی ہیں تاکہ اکثریت کا سینہ چوڑا ہو اور اقلیت مزید دبک جائے۔ یوپی حکومت کے ترجمان ایس ایم ترپاٹھی نے کہا ہے کہ سرکار کا ایسی گھٹناؤں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مسلمانوں یا ان کے کاروبار پر حملے کی زیادہ تر وڈیوز مشکوک یا جعلی ہیں اور حکومت ان کی چھان بین جلد کروائے گی۔ ہمارے ہاں قانون سب کے لیے یکساں ہے۔
مسلمانوں کے بھرپور منصوبہ بند معاشی مقاطعے کا سلسلہ دو ہزار سترہ میں یوپی میں یوگی ادتیاناتھ سرکار کے آتے ہی شروع ہوگیا۔ ریاستی حدود میں تمام مذبح خانوں کو صحت و صفائی کے ضابطوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام میں نئے ضوابط لاگو ہونے تک بند کردیا گیا۔ یوں ان مذبح خانوں سے جڑی گوشت کی دکانیں بھی ٹھپ ہو گئیں اور یوں ہزاروں خاندان معاشی گرداب میں آ گئے۔ آج چار برس بعد بھی گوشت کی صنعت کے لیے نئے قوانین وضع نہیں کیے جا سکے۔
بھارت میں سرکاری طور پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب گیارہ سے چودہ فیصد بتایا جاتا ہے مگر نوکریوں میں ان کا تناسب بمشکل چار فیصد ہے۔ سرکاری ادارے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق چھیالیس فیصد مسلمان اپنا گزارہ چھوٹے موٹے روزگار یا دیہاڑی داری سے کرتے ہیں۔ شدید بے روزگاری کے سبب مسلمانوں میں سیلف ایمپلائمنٹ کا تناسب بھارت کے کسی بھی اقلیتی گروہ سے زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق تمام مذہبی اقلیتوں میں غربت اور معمولی سستی ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس حالت میں بھی روزگار کمانے والے مسلمانوں کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔
پابندیاں لگانے کے لیے ریاستی سطح کے احکامات کی بھی اب ضرورت نہیں۔ مثلاً بی جے پی کے زیرِاختیار ایک اور ریاست ہریانہ میں گروگرام کی بلدیہ نے گوشت کی دکانوں کو منگل کی اضافی چھٹی کا حکم دیا اور اس روز کسی ریستوران میں گوشت کے پکوان کی فروخت پر بھی پابندی لگا دی۔ جواز یہ ہے کہ منگل ہندؤوں کے لیے متبرک دن ہے۔ یعنی ایک مخصوص اقلیت کو جس بہانے بھی اعلانیہ و غیر اعلانیہ کنگال کیا جا سکے کیا جائے۔
کوویڈ کو بھی ہتھیار بنایا گیا۔ وٹس ایپ پر ٹرینڈ پھیلائے گئے کہ مسلمان خوانچہ فروش کوویڈ پھیلا رہے ہیں۔ شمالی بھارت کے کئی دیہی علاقوں میں بھی مسلمان خوانچہ فروشوں کا داخلہ بند ہو گیا۔ نیشنل ہاکرز ایسوسی ایشن کو بیان دینا پڑا کہ کوویڈ کے سبب مسلمان ہاکروں کا نقصان کسی بھی دوسرے طبقے کے مقابلے میں دگنا ہے۔ اب وہ کسی بھی دیہات یا محلے میں گھسنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔
اس سال جنوری میں میرٹھ میں ایک ہندو پنچایتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تبلیغی رہنما سوامی آنند سروپ نے شرکا سے کہا کہ وہ مسلمانوں سے کوئی شے نہ خریدیں " اگر تم ان کی سماجی، سیاسی اورمعاشی کمر توڑ دو تو جلد ہی وہ اپنا مذہب چھوڑ کر زندہ رہنے کے لیے ہندو مت اختیار کرنا شروع کردیں گے "۔ اگلے برس فروری میں اتر پردیش میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ جوں جوں پولنگ کا دن قریب آتا جائے گا۔ ہندو ووٹ کی یک جائی اور مسلمان ووٹ کونے میں دھکیلنے کے لیے ہر وہ نفرتی حربہ پہلے سے زیادہ مہارت سے استعمال ہوگا جو بی جے پی اور اس کی طفیلی تنظیموں کا خاصہ ہے۔
لیکن عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے زیرِ انتظام ریاستوں میں عدالت کی کرسی بھی بھگوا رنگ کی ہو گئی ہے۔ تین بنگلہ دیشی عورتیں کہ جنھیں کئی برس پہلے انسانی اسمگلر اغوا کر کے بہار لائے تھے۔ ان کی درخواست پر اٹھارہ اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ وہ غیر قانونی تارکین ِ وطن پر نظر رکھنے کے لیے عام لوگوں اور مقامی تنظیموں میں آگہی بڑھائے اور آسام کی طرز پر نظربندی مراکز قائم کرے کہ جن میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو رکھا جا سکے اور وہیں سے انھیں ڈی پورٹ کیا جا سکے۔
اس عدالتی حکم پر یوں عمل ہوا کہ ایک ہفتے بعد ریاست بہار کے کچھ اضلاع میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ مگر بنگالی بولنے والے ہندو محفوظ رہے کیونکہ دو برس قبل شہریت کے قانون میں ترمیم کر کے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں آباد مذہبی اقلیتوں کو سہولت دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنی جان و مال کا خطرہ محسوس کریں تو بھارت آ سکتے ہیں۔ البتہ اس رعایت کے دائرے سے مسلمان باہر رکھے گئے ہیں۔
بہار میں ایک کروڑ ستر لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ آسام میں آباد مسلمانوں میں سے انیس لاکھ کو غیر ملکی قرار دیے جانے کے عمل کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں بہار کے بالخصوص سیمانچل خطے میں آباد مسلمانوں میں بے یقینی بڑھ رہی ہے۔ بہار کی حکومت نے غیرقاونی شہریوں کے لیے گول پاڑا ضلع میں ایک نظربندی مرکز بنایا ہے۔ جب کہ دیگر دس اضلاع میں نظربندی مراکز زیرِ تعمیر ہیں تاکہ بہار ہائی کورٹ کے فیصلے پر پرخلوص انداز میں عمل کیا جا سکے۔
آسام میں پچھلے ماہ کے آخر میں ایک مقامی مسلمان کو بنگلہ دیشی قرار دے کر گولی مارنے کے بعد پولیس کے ہمراہ آنے والا ایک فوٹو گرافر جس عالمِ طیش میں لاش پر دو بار کودا اور اسے گھونسے اور لاتیں بھی ماریں۔ اس کی وائرل وڈیو ممکن ہے کہ آپ نے بھی دیکھی ہو۔ بی جے پی کا بس چلے تو پوری ہندو قوم کو ہندوتوا کا کنٹوپ پہنا کر اس فوٹو گرافر میں بدل دے جسے لاش پر کودنے کے کارنامے پر شاباشی دیتے ہوئے سادہ لباس والے ایک پولیس اہل کار نے گلے لگا لیا تھا۔