یہودی پچھلے تین ہزار برس میں کب کے فنا ہو کر دیگر نسلوں اور قوموں اور جغرافیوں میں گھل مل کے خلط ملط ہو کر کتابِ تاریخ کا حاشیہ ہو چکے ہوتے مگر صرف ایک جملے نے نسل در نسل انھیں بچائے رکھا۔ یہ وہ جملہ تھا جو بخت نصر کے قیدی یہودیوں کی زبان پر تھا اور پھر نسل در نسل زبان در زبان یہود در یہود منتقل ہوتا چلا گیا۔ جملہ تھا " یروشلم اگلے برس گر خدا نے چاہا"۔
اس جملے نے تین ساڑھے تین ہزار برس تک یہودیوں کی آخری امید نہیں ٹوٹنے دی اور پھر پندرہ مئی انیس سو اڑتالیس کو اسی سرزمین میں اسرائیلیوں نے صیہونی مملکت کا پرچم بلند کر دیا اور راندہِ درگاہ یہودیوں کی جگہ راندہِ درگاہ فلسطینیوں نے لے لی۔ مگر چونکہ دونوں ایک ہی مٹی سے بنے ہوئے ہیں لہٰذا ضد میں بھی کوئی کسی سے کم نہیں۔ فلسطینی بھی مٹ جائیں گے مگر یہ کہنا کبھی نہیں چھوڑیں گے کہ " اگلے سال فلسطین انشااللہ"۔
پچھلے بہتر برس میں پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہونے والی ہر وہ نسل جس نے فلسطین دیکھا نہیں صرف سنا ہے، اپنے ہاتھ میں ایک پتھر البتہ رکھتی ہے جانے کب کام پڑ جائے۔ یہ پتھر ہی وہ اثاثہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔
اس بہتر برس کے عرصے میں سب سے اچھا کام یہ ہوا ہے کہ ہم مذہب ممالک اور حکومتوں سے ہر طرح کے فلسطینیوں کی امید یا جذباتی بندھن ختم ہو چکا ہے۔ یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ باعزت طریقے سے جینے میں کوئی برادرِ یوسف و غیر یوسف ان کی مدد نہیں کرے گا اور اگر کسی نے کچھ مدد کی بھی تو اس روز، جس روز فلسطینی اپنا قومی غرور فروخت کرنا چاہیں۔ تب وہ ایک سے ایک دلال آگے پیچھے پائیں گے۔
فلسطینیوں پر دوسری عظیم مہربانی یہ ہوئی ہے کہ ان سے سب کچھ چھن گیا ہے۔ حتیٰ کہ اچھے وقتوں کی حرص اور حالات جلد بدلنے کی لالچ بھی چھن گئی ہے۔ مگر نہیں چھن سکی تو یہ خواہش کہ "اگلے سال فلسطین انشااللہ"۔
اس خواہش کو خرید کر چھیننے اور چھین کر دفن کرنے کے لیے کیا کیا خوشنما جال نہیں بچھائے گئے۔ اسرائیل کا وجود تسلیم کر لو تو ایک الگ ریاست دے دیں گے، دہشت گردی ( یعنی جدو جہد آزادی ) سے تائب ہو جاؤ تو ہم کچھ لے کچھ دے کی بنیاد پر اسرائیلیوں سے سمجھوتہ کرا دیں گے۔ اچھا جتنی یہودی بستیاں بن چکی ہیں انھیں اگر تم اسرائیل کا حصہ مان لو تو باقی بچے کھچے پندرہ فیصد رقبے پر ہم تمہاری ملکیت تسلیم کر لیں گے۔
ہم تمہیں اگلے دس برس میں پچاس ارب ڈالر بھی دیں گے بس تم ایک بااختیار مملکت کی ضد پر اڑے رہنے کے بجائے خوشحال محکومیت پر قانع ہو جاؤ، ہم تمہاری حفاظت بھی کریں گے، تمہاری اقتصادی خوشحالی کی ضمانت بھی دیں گے، تم اپنے اپنے حد بند علاقوں میں عزت کی زندگی بھی گذار پاؤ گے، تمہارے جو رشتے دار پچھلے بہتر برس سے اردگرد کے ممالک کے کیمپوں میں چار چار نسلوں سے رہ رہے ہیں انھیں بھی ہم معاوضہِ ازالہ دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ گھر واپسی کے حق سے مستقل دستبرداری کے کاغذ پر دستخط کر دیں۔
پاگل مت بنو، ہٹ دھرمی چھوڑ دو، جذباتیت میں کچھ نہیں رکھا۔ تمہارا کوئی دوست نہیں۔ خود تو جیسے کیسے گذار لی، اپنی آیندہ نسلوں کا ہی سوچ لو۔ کیا رکھا ہے ایسی آزادی میں جو بھک مری کے سوا کچھ نہ دے، افریقی ممالک نے یورپی سامراج سے آزادی حاصل کر کے کون سا بھاڑ جھونک لیا۔ افغانستان تو کبھی بھی غلام نہیں رہا مگر ان کی زندگی میں کون سا سکھ چین کا پل آ گیا۔ پاکستانی آزاد ہو کر بھی کتنے خوش ہیں؟ حقیقت پسند بنو، جو مل رہا ہے لے لو، کل یہ بھی نہیں ملے گا۔ کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر۔
مگر فلسطینی شائد احساسِ سود و زیاں سے آگے نکل گئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کے دماغ سن ہو گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی باقی ماندہ ذہنی صحت بچانے کے لیے ہر فالتو تصور یا نظریے یا تجویز یا منصوبے پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے۔
ٹرمپ نے جب پچھلے ہفتے فلسطینیوں پر ترس کھاتے ہوئے ان کے لیے ڈیل آف دی سنچری کا اعلان کیا تو ٹرمپ کا خیال تھا کہ سارے فلسطینی ایک ٹانگ پر رقص کریں گے اور ٹرمپ کی مورتی بنا کر پرنام کریں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
بلکہ ٹرمپ پلان کے ساتھ فلسطینوں نے وہی کیا جو ارشمیدس نے کیا تھا۔ ارشمیدس سمندر کے کنارے بیٹھا سوچ رہا تھا۔ ایک نوجوان سامنے آ گیا، ارشمیدس نے پوچھا فرمائیے، نوجوان نے کہا میں سکندر ہوں۔ ارشمیدس نے کہا ہوں گے آپ سکندر مگر فی الحال میرے سامنے کی دھوپ چھوڑ دیجیے۔
یا پھر ٹرمپ کے ساتھ فلسطینیوں نے وہ کیا ہے جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے کیا تھا۔ بخاری صاحب دفتری کاموں میں مصروف تھے کہ قاصد نے اطلاع دی کوئی اعلیٰ وفاقی افسرِ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بخاری صاحب نے کہا بھیج دیجیے۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب اندر آ گئے۔
بخاری صاحب نے فائل پر سے نگاہ اٹھائے بغیر ہاتھ کے اشارے سے کہا تشریف رکھیے۔ اعلیٰ سرکاری بابو کو بخاری صاحب کا رویہ اچھا نہیں لگا اور انھوں نے کہا سر میں انفارمیشن محکمے میں مرکزی جوائنٹ سیکریٹری ہوں۔ بخاری صاحب نے اس بار بھی فائل پر سے سر اٹھائے بغیر کہا کہ پھر تو آپ ایک کے بجائے دو کرسیوں پر ایک ساتھ تشریف رکھیے۔ میں تب تک ذرا یہ فائلیں دیکھ لوں۔
فلسطینی اگلے بے شمار سال خاک بسر رہنے پر آمادہ ہیں مگر اپنی ضد کو پچاس ارب ڈالر کی امداد اور شاندار اقتصادی مستقبل کے خواب کا گروی بنانے پر ہر گز ہرگز آمادہ نہیں کر پا رہے۔ بس یہی ضد ایک دن فنا کر دے گی یا بقا کی ضمانت بن جائے گی۔
اتنا ضدی تھا میرا عشق نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کا ہی مہتاب اٹھا کر لے آئے
(عبید اللہ علیم)۔