ویسے تو میں ایک آزاد خودمختار آئینی جمہوری ریاست کا شہری ہوں کہ جس کی نگاہ میں مجھ سمیت تمام شہری برابر ہیں اور یہ کہ اس ریاست نے تحریراً و حلفاً مجھ سمیت بائیس کروڑ شہریوں کے جان و مال، نقل و حرکت، صحت، تعلیم، روزگار، عقیدے، تحریر، تقریر جیسے بنیادی حقوق کے تحفظ کا وعدہ کر رکھا ہے۔
بشرطیکہ میں یہ حقوق طے شدہ آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے جائز فرائض کی بجا آوری کرتے ہوئے استعمال کروں اور کسی ایسے جرم یا سرگرمی میں ملوث نہ ہوں کہ جو آئین و قانون کے تحت قابلِ تعزیر ہو۔
ریاست مجھ سے یہ توقع بھی کرتی ہے کہ میں خود پر عائد ٹیکس محصولات ایمانداری سے ادا کروں تاکہ ریاست اس کے بدلے مجھے بنیادی سہولتیں و مراعات باقاعدہ، مساوی انداز میں بلا رکاوٹ فراہم کر سکے۔ ریاست مجھ پر یہ فرض بھی عائد کرتی ہے کہ میں اگر اپنی آنکھوں سے کوئی اخلاقی، مالی یا دہشت گردانہ و تخریب کارانہ جرم ہوتے دیکھوں تو متعلقہ اداروں اور اہلکاروں سے ہر ممکن تعاون کروں تاکہ ریاست اور اس میں رہنے والے محفوظ رہیں۔
مجھ سے میرے بنیادی حقوق کے تحفظ کے عوض ریاست یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ اگر کسی ایسے اندرونی و بحران کا سامنا ہو کہ جس سے ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے تو میں تن من دھن کے ساتھ ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اس کی اندرونی و بیرونی سالمیت کا تحفظ کروں۔
مگر جس طرح ریاست مجھ سے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی توقع کرتی ہے کیا وہ بھی ضرورت کے وقت میرے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے؟ ساہیوال قتل کیس میں زندہ بچ جانے والے تین بچے منیبہ، جذبہ اور عمیر کو میں کیسے یقین دلاؤں کہ یہ ملک جتنا میرا ہے اتنا ہی تمہارا بھی ہے۔
میرے پیارے بچو تمہیں ذرہ برابر شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس ملک میں جتنے حقوق تمہارے والدین کو مارنے والوں کے ہیں اتنے ہی تمہارے بھی ہیں۔ اس ریاست کے وعدوں پر جتنا اعتبار اور یقین صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف کو ہے اتنا ہی تمہیں بھی ہونا چاہیے۔
میرے پیارے بچو تمہارے والدین، بہن اریبہ اور انکل ذیشان کے قتل کے بارے میں جو بھی فیصلہ آیا ہے اسے ہرگز ناانصافی سمجھ کر دل میلا مت کرو۔ یقین جانو تمہیں انصاف مل چکا ہے۔ اس انصاف کے عوض تم پر فرض ہے کہ جب تم بڑے ہو تو ڈاکٹر، انجینیر، سیاستدان یا افسر بن کر اس ریاست کی تن من دھن سے خدمت کرو اور قانون کا پورا احترام کرو۔
میرے بچو ریاست تو ماں ہے اور ماں ڈائن تھوڑا ہوتی ہے۔ ماں کے بارے میں کبھی بدگمان مت ہونا۔ اگر تمہیں کچھ سمجھ میں نہ آئے تو اسے ریاست اور اس کے اداروں کی غلطی مت سمجھنا بلکہ اپنی سمجھ کا الٹ پھیر جانتے ہوئے تمام برے خیالات ذہن سے نکال دینا۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ ریاست ماں ہے اور ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔
دیکھو بچو تم سمیت انچاس گواہوں میں سے کوئی بھی ٹھیک ٹھیک نہ پہچان سکا کہ تمہارے والدین اور بہن اور تمہارے منہ بولے انکل کو کس نے مارا۔ حالانکہ جب تمہارے پیاروں کے جسم میں گولیاں پیوست ہو رہی تھیں تو تمہیں سکتے میں آنے کے بجائے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے گولیاں مارنے والوں کے چہرے یاد رکھنے چاہیے تھے تاکہ تمہیں انصاف مل سکے۔
اب جب تم ہی چہرے نہ یاد رکھ سکے تو پھر ریاست کیا کرے اور ان گولیاں مارنے والوں کو حکم دینے والے بے چہرہ افسروں اور پھر ان افسروں کو حکم دینے والے بے چہرہ اداروں تک کیسے پہنچے؟ تو پھر تم ہی بتاؤ بچو کہ ایسی صورت میں عدالت کرے تو کیا کرے؟ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ تمہیں اس عمر میں ہی پتہ چل گیا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے۔ مگر تم بڑے ہو کر اندھے مت ہو جانا۔ اندھا پن صرف انصاف کو زیب دیتا ہے۔
اور بھائی محمد افضل تم نے بہت اچھا کیا کہ حافظ محمد سعید کے کہنے پر اپنے بیٹے صلاح الدین ایوبی کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ یوں بھی تمہارا بیٹا پاگل تھا۔ زندہ بھی رہتا تو ملک و قوم کے کس کام کا؟ یہ ٹھیک ہے کہ جن اہلکاروں نے تمہارے بیٹے کی ہڈیاں توڑیں ان سب کی شناخت ہوگئی اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی قائم ہوگیا۔
مگر تمہیں تو پتہ ہی ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے کتنے غیر جانبدار ہیں۔ تم نے اپنی مرضی سے قاتلوں کو معاف کر دیا اور اللہ کی رضا حاصل کر لی اور دل کو سمجھا لیا کہ تمہارا بیٹا بھی قضائے الہی سے فوت ہوگیا۔ تم ایسا نہ کرتے تو ریاست یقیناً قاتلوں کو نشانِ عبرت بنا دیتی بالکل تمہارے بیٹے کی طرح۔
بھائی محمد افضل جیسے ساہیوال کیس میں منیبہ، جذبہ اور عمیر کے چچا جلیل نے ریاستی انصاف پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا بالکل اسی طرح تم نے بھی اپنے بیٹے صلاح الدین کا فیصلہ خدا کی عدالت پر چھوڑ کر بہت اچھا کیا اور بہت اچھا یہ ہوا کہ تم نے یہ فیصلہ اپنے مرشد حافظ محمد سعید کو اعتماد میں لے کر بلا کسی جبر و مروت کے کیا تاکہ حافظ صاحب کی پوری توجہ کشمیر اور دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے پر مرکوز رہے۔
بھائی افضل تم نے اپنے ذاتی دکھ کو ملک و قوم کے عظیم مفاد پر قربان کرکے اعلی ظرفی کی زریں مثال قائم کی۔ بھائی محمد افضل تم نے اپنے بیٹے کی زندگی کا چراغ گل کرنے والے اہلکاروں کے گھروں کا چولہا بجھنے سے بچا لیا۔ اب یہ اہلکار تادمِ تحریر نادم رہیں گے۔ وہ سب بحال ہو چکے ہیں اور تم ریاستی شہریوں کے تحفظ کے لیے ان سب کو پہلے سے زیادہ مستعد پاؤ گے۔
بھائی افضل ریاست قطعاً بے حس و بے مروت نہیں۔ منیبہ، جذبہ اور عمیر کے چچا جلیل کی جانب سے فیصلہ تسلیم کیے جانے کے باوجود حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ممکن ہے تمہارے بیٹے کے قاتلوں کو بخش دینے کے تمہارے فیصلے کو بھی ریاست تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ مگر تم بہت زیادہ آس مت لگاؤ بھائی افضل۔ تم تو معاف کر چکے۔ اب ریاست کیا کرتی ہے کیا نہیں کرتی تمہیں اس سے کیا؟
اور بھائی محمد افضل تم اکیلے تھوڑی ہو جس نے اللہ کی عدالت پر اپنا فیصلہ چھوڑ دیا۔ تمہیں نوید ہو کہ ریاست بھی بہت سے فیصلے خدا کی عدالت پر چھوڑ رہی ہے۔ جیسے پرویز مشرف صاحب کا آرٹیکل چھ والا مقدمہ۔
جس روز دلائل مکمل ہونے کے بعد دنیاوی عدالت اپنا فیصلہ محفوظ کرنے والی تھی عین اسی دن ریاست نے اپنے پانچ وکلا کے پینل سے لاتعلقی کا اعلان کرکے اسے توڑ دیا۔ اب کب نیا پینل بنے گا کب وہ ازسرِ نو پورے مقدمے کا جائزہ لے گا، کب دوبارہ اپنے دلائل دے گا، کب جج سنے گا، ایک ہی جج سنے گا یا یکے بعد دیگرے کئی جج سنیں گے اور کب دوبارہ کسی نتیجے پر پہنچیں گا۔
یوں بھی مشرف صاحب کی صحت اچھی نہیں ہے۔ انھیں نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے۔ ویسے بھی عمر کے اس حصے میں سزا ہو بھی گئی تو کیا ہوگا۔ لہٰذا جو ہوا سو ہوا۔ آئین بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ آرٹیکل چھ بھی اسی آئین میں آرام فرما ہے۔ کبھی نہ کبھی تو اس کی نیند ٹوٹے گی اور وہ کسی نہ کسی پر لاگو ہو ہی جائے گا۔ اب یہ کوئی موا اچھال چھکا نیب آرڈیننس تھوڑا ہے جو ہر ہما شما پر ٹوٹتا پھرے۔
بس یوں سمجھو کہ آرٹیکل چھ ایٹم بم کی طرح ہے۔ دونوں بس ہوتے ہیں۔ استعمال تھوڑا ہوتے ہیں۔ تبھی تو ایٹمی طاقتوں کو ذمہ دار ریاستیں کہا جاتا ہے۔