بقول غالب "پہلے میں گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں"۔ پر لگتا ہے کہ موجودہ حکومت غالب کے برعکس گورے (آئی ایم ایف)اور کالے (میڈیا)دونوں کی قید میں ہے۔ یعنی اب اہم اقتصادی فیصلے بھی آئی ایم ایف کے ری ایڈجسٹمنٹانہ معاشی جلاب کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے دباؤ اور ٹی وی اینکرز کی چیخ و پکار کی تاب نہ لا کر بدلے جا رہے ہیں۔
تازہ مثال گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی)کے دو سو دس ارب روپے بڑے کاروباریوں کو بخش دینے کا آرڈیننس، اس کا ٹی وی اسکرینز پر پرزور دفاع اور پھر ڈجیٹل و الیکٹرونک چلی پکار سے متاثر ہو کر اس آرڈیننس کو واپس لے کر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔ گویا نانی نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور برا کیا۔
ایسے وقت جب پاکستان معاشی آئی سی یو میں ہے، بیمار کے لیے مرض اتنا خطرناک نہیں جتنا کچے کانوں والے ڈاکٹروں کے پینل سے ہے۔ اور صرف ڈاکٹر ہی اگر کسی میڈیکل بورڈ میں ہوں تو کوئی بات نہیں۔ اس معاشی طبی پینل میں تو لگتا ہے طبی محقق، ڈاکٹر، وید، ہیومیوپیتھ، کمپاؤنڈر، ہڈی جوڑ پہلوان اور جھاڑ پھونک والے ووڈو معالجوں سمیت سب ہی آن بورڈ ہیں۔ لہذا آپریشن، شاک تھراپی، معجون، پڑھا ہوا پانی، اسپرین، فزیو تھراپی سب ایک ساتھ آزمائے جا رہے ہیں۔ اس پر یہ نوید بھی مسلسل کہ "گھبرانا نہیں ہے۔ یہ جو بگاڑ نظر آ رہا ہے دراصل یہی تو سنوار ہے مگر تمہیں (عوام) اس کا شعور نہیں"۔
یہ درست ہے کہ بہت سی کرپٹ مچھلیوں کو جائے پناہ میسر نہیں آ رہی اور اربوں روپے پلی بارگین کی صورت میں قومی خزانے میں داخل کرنے کی ہفتہ وار خوشخبری سنائی جا رہی ہے مگر پوری توجہ اگر ایک ہی سمت لگا دی جائے گی تو معیشت کے باقی شعبوں کی اترتی نیکر کون سنبھالے گا؟
معیشت کی لنگوٹ شاک تھراپی یا بگٹٹ احتساب کے سبب کھسک رہی ہے یا پھر دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے کی حکمتِ عملی (اگر یہ واقعی کوئی حکمتِ عملی ہے) کا شاخسانہ ہے یا معیشت اس گدھے کی طرح اڑیل ہو رہی ہے کہ دم سے پکڑ کے پیچھے کھینچو تو اور آگے جاتا ہے؟ مجھ جیسے لال بھجکڑوں کو اس غدر پدائی میں کچھ ٹپائی نہیں دے رہا۔
معیشت کا اتنا دماغ نہیں ہوتا کہ وہ مسئلہ کشمیر شاہ محمود قریشی کی طرح سمجھے۔ لہذا اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ سیاسی و خارجہ حالات کی سنگینی کا کمبل اوڑھا کے مریضِ معیشت کو صحت بخش پسینہ دلانے کی کوشش کامیاب رہے گی اور مریض کے لواحقین اپنی تکالیف وقتی طور پر بھول جائیں گے تو ایسی کوشش بھی بہت لمبی نہیں چلتی۔
مسائل ایسے سائل ہیں کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں
دو دن پہلے روزنامہ ڈان میں تجزیہ کار خرم حسین کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ اس کے مطابق نئے بجٹ کے بعد سے صنعتی مصنوعات کی فروخت میں مزید تیس فیصد گراوٹ آئی ہے۔ اگر کمی کا یہ تناسب تین ماہ (جولائی تا ستمبر) مسلسل ایک ہی رفتار سے برقرار رہے تو چوتھے مہینے (اکتوبر)تک اتنا تیار مال ذخیرہ ہو جائے گا کہ اس کے بعد فیکٹری کو بند کرنے یا اسے کھلی رکھنے کے لیے پیداواری اخراجات مسلسل گھٹاتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اس کی ایک واضح مثال آٹو موبیل انڈسٹری ہے۔ چھ ماہ پہلے تک بھی اگر آپ کو نئی کار خریدنی ہے تو کئی ماہ کی ایڈوانس بکنگ کرانی پڑتی تھی۔ آج اخبارات میں مسلسل اشتہارات آ رہے ہیں کہ کار کی فوری نقد ڈلیوری پائیے۔ مگر اب بہت سے خریدار کان نہیں دھر پا رہے۔ آٹو موبیل انڈسٹری میں دس سے بارہ دن کام بند ہونے لگا ہے کیونکہ پہلے سے تیار مال ہی نہیں نکل پا رہا۔
اگرچہ حکومت نے عوام کے لیے بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور وزیرِ اعظم تقریباً ہرماہ کسی نہ کسی عوامی رہائشی اسکیم کا فیتہ کاٹ رہے ہیں۔ مگر سیمنٹ، سریا اور ٹائلوں کے کاروبار میں کساد بازاری کم ہو کے نہیں دے رہی۔
حتیٰ کہ خوردنی تیل تیار کرنے والے سیٹھ بھی شکایتی بنے ہوئے ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید اتنی کم ہوتی جا رہی ہے کہ وہ معیار کے بجائے سستے تیل کی جانب راغب ہیں اور وہ بھی چھوٹے پیکٹوں یا ڈبوں کی شکل میں۔
ٹرکوں اور ٹریکٹروں کی فروخت میں گذشتہ مالی سال کے دوران پچاس فیصد کمی دیکھی گئی۔ نئے مالی سال کے پہلے دو ماہ میں یہ فروخت مزید تیس فیصد کم ہوئی ہے۔ گویا سال بھر پہلے اگر سو ٹرک یا ٹریکٹر فروخت ہو رہے تھے تو اب تیس ہو رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مال برداری اور زراعت کے شعبے میں نمو پذیری بھی فی الحال تصوراتی ہے۔
سرکار کی " گبھرانا نہیں ہے " پالیسی اپنی جگہ مگر معاشی پھسل منڈے پر توازن برقرار رکھنے کے لیے کوشاں صنعت کار، سرمایہ کار اور تاجر اس دبدھا کی موٹی موٹی وجوہات یہ بتاتے ہیں کہ شرح سود میں اضافے کے بعد کاروباری قرضہ لینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اوپر سے روپے کی قدر ایک جگہ ٹک کے نہیں دے رہی، قوتِ خرید اور طلب سکڑتی جا رہی ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے کے جوش میں تھوک و پرچون کا بزنس اور ڈسٹری بیوشن کا نظام گڑبڑا گیا ہے۔ سرکار کی جانب سے ترقیاتی بجٹ میں بھاری کٹوتی کے سبب نئے تعمیراتی منصوبے نہیں اٹھ پا رہے لہذا سیمنٹ، سریا اور دیگر تعمیراتی سامان بھی بغلیں جھانک رہا ہے۔
اگرچہ اب تک وسیع پیمانے پر صنعتی کارکنوں کی چھانٹی کی نوبت تو نہیں آئی مگر اخراجات کو کم سے کم رکھنے کے لیے صنعت و تجارت و بازار کے دروازے دہاڑی مزدوروں کے لیے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ مزید تسلی کرنی ہو تو کسی بھی ایسی جگہ جہاں دھاڑی مزدور کام کی تلاش میں بیٹھے ہوں ان سے جا کر پوچھ لیجیے کیسا لگ رہا ہے نیا پاکستان؟
اگرچہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا کہ صنعتی ادارے خود کو دیوالیہ ظاہر کرکے یا فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد انشورنس کلیم کرکے پتلی گلی سے نکل لیں جیسا کہ آخری بار دو ہزار آٹھ کے عالمی کساد بازار کریش کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔ مگر اس نوبت سے اگر اب بھی بچنا ہے تو جوش کی مقدار تھوڑی کم اور ہوش کی مقدار قدرِ زیادہ کرنا پڑے گی۔ ورنہ تیزی سے بدل رہی توتا چشم دنیا کو یہ کہتے کتنی دیر لگتی ہے کہ بھائی جہاں رہو خوش رہو۔