اور اب بنگلہ دیش سے خبر آئی ہے کہ وہاں پیاز نایاب ہوگئی ہے۔ قیمت تیس ٹکہ سے بڑھتے بڑھتے ڈھائی سو ٹکہ فی کلوگرام تک پہنچ گئی ہے۔ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے کھانے میں پیاز کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف بنگلہ دیش نے دارالحکومت میں پیاز کی قلت سے پیدا ہونے والے غصے میں کمی کے لیے سرکاری اسٹال لگا دیے ہیں جہاں پینتالیس ٹکہ فی کلو گرام کے نرخ پر پیاز خریدنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ ہنگامی طور پر میانمار، چین، ترکی اور مصر سے پیاز منگوائی جا رہی ہے۔ یہ بحران دو ماہ قبل ستمبر میں پیدا ہوا جب بھارت نے بھاری مون سون بارشوں کے سبب پیاز کی پیداوار میں کمی کے بعد بنگلہ دیش کو پیاز کی برآمد روک دی۔
مگر بنگلہ دیشی نوکر شاہی نے آنے والے پیازی بحران کی پیش بینی اور اس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کے بجائے پانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار کیا اور اب ہنگامی طور پر بھاگ دوڑ کرکے پیاز منگوائی جا رہی ہے۔ اس انتظار کرو اور دیکھو کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں سوچیے امپورٹر، ٹرانسپورٹر اور آڑھتی نے کتنا کما لیا اور کتنا مزید کمائیں گے۔
یہ کہانی سنی سنائی اور دیکھی بھالی سی لگ رہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام ہوں کہ بیورو کریسی، ہیں تو ہمارے ہی بھائی اور سوچتے بھی ہماری طرح ہیں اور مسائل کا تدارک بھی ہمارے انداز میں ہی کرتے ہیں۔
کردار وہی، انداز وہی، بحران وہی، نمٹنے کا طریقہ وہی۔ بس اجناس کے نام بدل جاتے ہیں۔ کبھی چینی، کبھی پیاز تو کبھی ٹماٹر۔ متعلقہ ادارے بحران کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انھیں ایک برس پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ گنے کی اگلی فصل کتنی اچھی یا بری ہوگی۔ پیاز اور ٹماٹر کی پیداوار کتنی ہوگی۔
لیکن بحران شروع ہونے سے پہلے ہی اگر ان بنیادی اشیائے ضرورت کی دساور سے درآمدگی کے ٹینڈر جاری کرکے بروقت انتظامات مکمل کر لیے جائیں تو پھر فائدہ تو عوام کی جیب کا ہوگا۔ وزیر، نوکر شاہ، امپورٹر اور آڑھتی کی جیب کو اس بحران کے طفیل کیا ملے گا؟
لہٰذا فائلیں تب تک آگے نہیں بڑھتیں جب تک بحران کے سورج کی پہلی کرن عوام کے چہرے پر نہیں پڑتی۔ حکومت اور اس کے کل پرزے اور متعلقہ ادارے ایسے اداکاری کرتے ہیں گویا انھیں کل ہی پتا چلا ہو کہ چینی، ٹماٹر یا پیاز اچانک ختم ہو گئے اور ان کی قیمت چھلانگ لگا کے چھت پر بیٹھ گئی۔
زمانہ بھلے ایوب کا ہو، بھٹو کا، ضیا کا، بے نظیر و نواز شریف کا، پرویز مشرف کا یا زرداری و عمران خان کا۔ قلت اور اس سے نمٹنے کا ایک ہی اسکرپٹ ہے جو نسل در نسل حکومت در حکومت، کلرک در کلرک، آڑھتی در آڑھتی چلا آرہا ہے اور یونہی ہاتھ در ہاتھ چلتا رہے گا۔
اس پر مزید نمک پاشی کبھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے والے حکمران کرتے ہیں۔ مثلاً ضیا دور میں جب چینی اچانک اڑن چھو ہوگئی اور وزیرِ جہاز رانی مصطفی گوگل کی جہاز راں کمپنی کو ہنگامی طور پر چینی درآمد کرنے کا حکم (ٹھیکہ) ملا تو اسی زمانے میں جنرل صاحب کو بھی بذلہ سنجی سوجھی اور فرمایا کہ ہم صدیوں سے گڑ استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ لوگ چینی کے بجائے گڑ استعمال کریں ویسے بھی گڑ چینی کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے۔
اس وقت کسی مائی کے لال میں جرات نہیں تھی کہ اعلیٰ حضرت کے کان میں کہہ سکے کہ حضور گڑ بھی گنے سے ہی بنتا ہے۔ اگر گنے کی فصل اچھی ہوئی ہوتی تو نہ چینی کا بحران پیدا ہوتا اور نہ ہی آپ کو اتنی " عقل مندانہ"تجویز دینے کی ضرورت پیش آتی۔
جب دو ہزار تین میں ٹماٹر کی قلت ہوئی تو پرویز مشرف صاحب نے فرمایا کہ ٹماٹر نہیں تو دہی استعمال کر لیں، کیا مہنگے ٹماٹر خریدنا بہت ہی ضروری ہے۔
کون کہتا ہے کہ عوام کو روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھا لیں کہنے والی فرانسیسی ملکہ میری انتواں انقلابِ فرانس کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس کی روح آج بھی بھٹک رہی ہے اور جو بھی حکمرانی کی کرسی پر بیٹھتا ہے اس میں حلول کر جاتی ہے۔
سب فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ پاکستان میں ٹماٹر کی سالانہ کھپت دس لاکھ میٹرک ٹن ہے مگر پیداوار لگ بھگ چھ لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ گویا چار لاکھ میٹرک ٹن کے خسارے سے تو نمٹنا ہی ہے بھلے حکومت اچھے خان کی ہو یا بینڈے خان کی۔ اسی طرح کی بے یقینی پیاز کی پیداوار کے معاملے میں بھی پائی جاتی ہے۔
میں کوئی کاشتکار نہیں لیکن کیا یہ یا اس سے ملتی جلتی حکمتِ عملی ممکن ہے کہ جس طرح ہر سال حکومت گندم اور گنے کی سپورٹ پرائس کا اعلان کرتی ہے اسی طرح پیاز اور ٹماٹر کے لیے بھی سپورٹ پرائس کا کوئی انتظام وضع ہو سکے۔ پیاز اور ٹماٹر کے کاشت کاروں کو بھی سہولت ملے کہ منڈی کے اتار چڑھاؤ سے قطع نظر سرکار ایک طے شدہ نرخ پر گندم اور چینی کی طرح پیاز اور ٹماٹر بھی خرید کے متعلقہ اداروں کے توسط سے منڈی میں پہنچائے گی تاکہ آڑھتی اور ذخیرہ اندوز کے ہوش ٹھکانے رہیں۔
ورنہ تو وہی ہوتا رہے گا جو گزشتہ برس ہوا۔ ٹماٹر کی بمپر فصل ہوئی مگر نرخ اتنے گر گئے کہ کسان ان سے لٹک گیا۔ حتیٰ کہ آڑھتی کسان سے دو روپے کلو پر اٹھانے میں بھی سودے بازی کر رہا تھا اور مارکیٹ میں ٹماٹر پچاس اور ساٹھ روپے کلو کے درمیان بک رہا تھا۔ چنانچہ اگلے برس کسان کیوں ٹماٹر بوتا؟ یہ وہ گردشی سائیکل ہے جس سے کوئی بنیادی یا نقد آور فصل محفوظ نہیں۔ حالانکہ ذرا سی پیشگی منصوبہ بندی کرکے اس منحوس چکر سے بچا جا سکتا ہے۔
ٹماٹر کا تازہ بحران ڈیڑھ ماہ قبل شروع ہوا۔ جب قیمت اسی روپے فی کلو گرام سے بڑھ کے ایک سو بیس تک پہنچی اور پھر زقند لگا کر ساڑھے تین سو روپے کے پائیدان پر بیٹھ گئی۔ تب کہیں جا کے گزشتہ ہفتے فیصلہ ساز جاگے اور انھوں نے ہبڑ تبڑ کی اداکاری کرتے ہوئے اگلے ایک ماہ کے لیے ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دے دی (بھلے وقتوں میں واہگہ کے راستے بھارتی ٹماٹر اور پیاز منگوا کے بحران ٹال لیا جاتا تھا۔ مگر وقت ایک سا نہیں رہتا)۔
نیب کو کبھی فرصت ملے تو اس جانب بھی دھیان دے کہ قلت اور کثرت کے فائن آرٹ سے جو اربوں روپے عوام کی جیب سے خواص کی جیب میں منتقل ہوتے ہیں اس کا کیا کرنا ہے؟