مورخ آرنلڈ ٹائن بی کے مطابق امریکا کی خارجہ پالیسی کے چار ستون ہیں۔ اول براعظم جنوبی امریکا (لاطینی امریکا) میں کسی غیر براعظمی سپرپاور کو پیر جمانے نہ دیے جائیں اور یہ خطہ مجموعی طور پر ریاستہائے متحدہ امریکا کا محفوظ پچھواڑہ (بیک یارڈ) بنا رہے۔
دوم امریکا خود کو غیر امریکی دنیا سے جوڑنے والے دو سمندروں (بحراوقیانوس، بحرالکاہل) میں ہر قیمت پر غالب قوت رہے۔ سوم یوریشیا (یورپ اور ایشیا) میں کوئی دوسری طاقت امریکا کے ہم پلہ نہ ہو۔ چہارم امریکا سرمائے کی عالمی گردش میں کوئی بقائی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
یہ چاروں مقاصد تب ہی حاصل ہو سکتے ہیں جب دنیا بھر میں اتحادی انتظام کا جال بچھا ہو۔ اور چوبیس گھنٹے ایک چوکس پولیس والے کی گول گول گھومتی پتلیاں ہر شے پر نگاہ رکھیں۔ یہ پولیس مین خطرے کی بو سونگھتے ہی ٹرگر دبانے میں ذزرا نہ ہچکچائے تاکہ لبلبی کا دبدبہ برقرار رہے۔
پچھلے ستر برس میں (انیس سو پچاس تا دو ہزار بیس) امریکا دو سو سے زائد چھوٹی بڑی جنگیں لڑ چکا ہے یا سو سے زائد ممالک میں فوجی مداخلت کر چکا ہے تاکہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا پہیہ رکنے نا پائے۔ اس پہیے کو ہمہ وقت تر رکھنے کے لیے خون کی چکنائی درکار ہے اور بطور ایندھن لاشوں کی رسد چاہیے۔ اگر کوریا، ویتنام اور افریقہ کو بھول بھی جائیں تب بھی صرف نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیس سالہ دور میں کم از کم نو لاکھ اکتیس ہزار مسلح و غیر مسلح انسان مارے جا چکے ہیں۔
بحر اوقیانوس پر اجارہ داری اور دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے دبدبے کا جواز ڈھونڈنے کے لیے سرخ خطرے کا ہوا کھڑا کیا گیا اور اس ہوے کو دھمکانے کے لیے ادھ موئے جاپان پر دو ایٹم بم مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے سابق اتحادی سوویت یونین کے خلاف ناٹو اتحاد تشکیل دیا گیا۔
بحرالکاہل کو کھلا رکھنے کے لیے گوام تا فلپینز، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا میں مستقل فوجی اڈے تعمیر کیے گئے اور کمزور ضرورت مند ممالک کو سیٹو سینٹو جیسے ذیلی معاہدوں کی لڑی میں پرویا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی کوئی دہائی ایسی نہ گذری جس میں کوئی بڑی جنگ ایجاد نہ کی گئی ہو۔
کچھ خوش فہموں کو امید تھی کہ سوویت یونین تحلیل ہونے کے نتیجے میں حسد ناک مسابقتی جنگی ذہن کو قرار مل جائے گا۔ مگر پھر نائن الیون کے سبب بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بیس سالہ منافع ساز پروجیکٹ ہاتھ آ گیا۔ درجنوں امریکی و یورپی کمپنیوں اور کارپوریشنوں نے حلق تک منافع کمایا۔ مگر ان درجن بھروں کے منافع جاتی چکر کی زد میں آ کر لاکھوں لوگ برباد ہو گئے۔ اگرچہ یہ پروجیکٹ پندرہ اگست دو ہزار اکیس کو کابل میں دفن ہو گیا۔ تب تک اس پروجیکٹ کے طفیل آٹھ ٹریلین ڈالر بٹ بٹا گئے۔
پر وہ جو مراٹھی میں کہتے ہیں کہ ریچھ کو بالوں کی کیا کمی۔ چین کو اگلے پچاس برس کے لیے ہوا بنا کر پیش کرنے کا منصوبہ ہاتھ آ گیا۔ اور اب ترقی پذیر دنیا کو چین کے " بے رحمانہ اقتصادی استحصال سے بچانے "اور بحرالکاہل و بحرہند کو چین پرستی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایشیا پیسفک اکنامک فورم کے بعد کوارڈز (امریکا، جاپان، آسٹریلیا، بھارت) اور آکوس (آسٹریلیا، برطانیہ، امریکا) کے نام سے نیا اتحادی نظام متعارف کروایا گیاہے۔ تاکہ تمام سرکردہ عالمی مالیاتی و تزویراتی اداروں کے جائزوں پر مبنی یہ تجزیہ غلط ثابت کیا جا سکے کہ اگر چینی اقتصادی و اسٹرٹیجک ترقی کی شرح یوں ہی برقرار رہی تو سن دو ہزار پچاس تک چین پہلے اور امریکا دوسرے نمبر کی سپرپاور بن جائے گا۔
شیر آیا شیر آیا کا پیشگی شور اس حقیقت کے باوجود مچایا جا رہا ہے کہ فوجی اخراجات پر نگاہ رکھنے والے سب سے موقر بین الاقوامی ادارے اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار بیس میں امریکا کا فوجی بجٹ فہرست میں امریکا سے نیچے آنے والے نو ممالک کے مجموعی فوجی اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ دو ہزار بیس میں سات سو اٹھتر ارب ڈالر کے امریکی فوجی اخراجات کے مقابلے میں چین کے فوجی اخراجات دو سو باون بلین ڈالر، بھارت کے تہتر بلین ڈالر، روس کے باسٹھ بلین ڈالر اور برطانیہ کے انسٹھ بلین ڈالر تھے۔
چین کا بیرونِ ملک اب تک صرف ایک فوجی اڈہ (جیبوتی)ہے۔ جب کہ امریکا کے اسی ممالک میں ساڑھے سات سو فوجی اڈے ہیں اور ایک سو انسٹھ ممالک میں امریکا کے ایک لاکھ تہتر ہزار فوجی تعینات ہیں۔ ان میں سے نصف کے لگ بھگ امریکی فوجی (چھیاسی ہزار دو سو سڑسٹھ) چین کے انتہائی نزدیک جزائر گوام، جاپان اور جنوبی کوریا میں ایک سے چھ گھنٹے کے فضائی فاصلے پر دو سو سینتالیس ٹھکانوں پر مستقل تعینات ہیں۔ چین سے ایک ہاتھ کے فاصلے پر تائیوان بھی ہے۔ جسے امریکا کیل کانٹے سے لیس اپنا اضافی طیارہ بردار جہاز (ایئرکرافٹ کریئر) گردانتا ہے۔
تو کیا مستقبلِ قریب میں چین اور امریکا کے درمیان کسی براہِ راست جنگ کا امکان ہے؟ سوویت یونین میں امریکی کمپنیوں کی یا امریکا میں سوویت یونین کی کوئی سرمایہ کاری نہیں تھی۔ اس کے باوجود ساڑھے چار عشروں تک ہتھیاروں اور حلقہِ ہائے اثر بڑھانے کی دوڑ جاری رہی۔ دونوں طاقتیں دنیا کے ہر خطے میں پراکسی جنگیں بھی لڑتی رہیں مگر دو بدو کی کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
سابق سوویت یونین کے برعکس آج کے چین میں تو امریکا کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ دونوں ممالک کی تجارت کا حجم دو ہزار بیس میں پانچ سو ساٹھ بلین ڈالر رہا۔ امریکا نے اس عرصے میں چین سے چار سو پینتیس ارب ڈالر کی اشیا خریدیں اور ایک سو چوبیس بلین ڈالر کی اشیا فروخت کیں۔ آسٹریلیا اور چین کے مابین گزشتہ برس ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ بھارت چین تجارتی حجم دو ہزار بیس میں اٹھاسی ارب ڈالر رہا۔ چین نے گزشتہ برس جاپان سے ایک سو چھیالیس ارب ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ میں نے امریکا، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان سے چینی تجارت کا بطورِ خاص اس لیے تذکرہ کیا کہ دشمنی اپنی جگہ بیوپار اپنی جگہ۔
سوویت یونین کے برعکس چین عالمی فیکٹری کہلاتا ہے۔ دنیا کے شاید چار پانچ ملک ہی ہوں گے جنھیں چین کے ساتھ تجارت میں خسارہ نہ ہوا ہو۔ مگر چین سے سامان خریدنا اور بیچنا دوست دشمن سب کی مجبوری ہے۔ براہ ِ راست شعوری یا حادثاتی جنگ کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے ہی ہلے میں چین مخالف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تیس فیصد معیشت بیٹھ جائے۔
لہٰذا یہ ہاؤ ہو بس چین کا خوف بیچ بیچ کر ایک سے ایک ہتھیار سازی اور عالمی وسائل پر زیادہ سے زیادہ قبضے کے مسابقتی کاروبار کو زندہ رکھنے کی حد تک جاری رہے گی۔ یہ جنگ روایتی ہتھیاروں کا خوف دلا کر سائبر میدان میں مصنوعی ذہانت کے بل پر لڑی جائے گی۔
چین ایک ابھرتی طاقت ہے اور امریکا کو اپنی روایتی سپرپاور حیثیت بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہر سلطان کی طرح ہر سلطنت کی بھی طبعی عمر ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ہڈیوں میں اترنے والی لاغری سے آخر کب تک لڑا جا سکتا ہے؟