ابھی تیرہ روز پہلے ہی 22 مارچ کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی اپیل پر پورے ملک میں آزمائشی طور پر ایک دن کے لیے " جنتا کا کرفیو" لگایا گیا اور شام پانچ بجے پانچ منٹ تک کورونا سے نبرد آزما ڈاکٹروں اور طبی عملے کی حوصلہ افزائی اور شکریہ ادا کرنے کے لیے علامتی طور پر نہ صرف تالیاں اور تھالیاں بجائی گئیں بلکہ سماجی فاصلے کے اصول کو نظرانداز کرتے ہوئے کئی شہروں میں بی جے پی کے حامیوں نے چھوٹے چھوٹے جلوس بھی نکالے۔
مگر پھر دلی کے ایک علاقے سے یہ خبر بھی آئی کہ کچھ ڈاکٹروں اور نرسوں کو مکان مالکان نے فوری طور پر گھر خالی کرنے کو کہا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ ڈاکٹر اور نرسیں اسپتال میں کورونا کے مریضوں کے ساتھ رہ کر خود بھی وائرس زدہ ہو گئے ہیں۔ ایسی اکا دکا خبریں بھی آئیں کہ ڈاکٹروں یا نرسوں کو مجبور کرنے کے لیے مکان مالکوں نے گھر کی بجلی بھی کاٹ دی۔
اور کل ہی یہ خبر بھی آئی کہ اندور اور حیدرآباد میں جب طبی عملے نے کورونا کے ممکنہ مریضوں کے معائنے کے لیے ان کے محلوں میں جانے اور مبتلا ہونے کی صورت میں قرنطینہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو اہلِ محلہ نے انھی ڈاکٹروں اور طبی عملے پر پتھراؤ کیا۔ چنانچہ جان بچانے کے لیے جانے والے مسیحاؤں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ وہی ہیرو تھے جن کے لیے تیرہ دن پہلے تالیاں اور تھالیاں بج رہی تھیں۔
" جنتا کے کرفیو" کے دو تین روز بعد جب مودی سرکار نے پورے ملک میں اچانک صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر نتائج کا سوچے بغیر مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو ہر طبقے میں بھگدڑ مچ گئی۔ جن کے پاس پیسے تھے وہ دکانوں اور سپر مارکیٹوں کی جانب ایک اژدھام کی صورت میں دوڑے تاکہ جتنی اشیا خرید سکتے ہیں خرید لیں۔
جن کے پاس سکت نہیں تھی اور جو اپنے اپنے گاؤں سے بڑے شہروں میں محنت مزدوری کے لیے آئے تھے۔ ان کو صرف ایک بات ہی سمجھ میں آئی کہ واپس گھر کو چلو۔ چنانچہ شہروں سے گاؤں جانے والی سڑکوں پر مزدور اور دہاڑی دار اور ان کے اہلِ خانہ لاکھوں کی تعداد میں نکل کھڑے ہوئے۔ صوبوں نے سرحدیں بند کر دیں اور ٹرانسپورٹ معطل ہو گئی۔ جو تھوڑی بہت بسیں چل رہی تھیں ان کے انتظار میں ہزارں لوگ بس ٹرمینلز پر جمع تھے۔
بھارت میں اب تک کورونا وائرس سے سرکاری طور پر چالیس کے لگ بھگ اموات ہوئی ہیں مگر سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر موجود گاؤں کی جانب پیدل چلنے والوں میں سے تادمِ تحریر کم ازکم پچیس افراد سفر کی تھکن کے سبب جان دے چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ شہر سے گاؤں کی جانب ہجرت کرنے والوں کی تعداد تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والوں سے کئی گنا زائد ہے۔
جب مودی حکومت کو احساس ہوا کہ پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر انتہائی قلیل نوٹس پر لاک ڈاؤن کا اعلان انسانی المیہ بن رہا ہے تب کہیں جا کے کمزور طبقات کی مادی و مالی امداد کے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ حالانکہ عقلِ سلیم کا تقاضا یہ تھا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے پیکیج کا یقین دلا دیا جاتا تو اتنی افراتفری نہ مچتی کہ وزیرِ اعظم کو اس تکلیف پر پوری قوم سے معافی مانگنا پڑتی۔
اس المیے سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی قربانی کے بکرے کی تلاش تھی اور وہ بکرا فوراً ہی دلی کی درگاہ نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کی شکل میں ہاتھ آ گیا۔ حالانکہ یہ اجتماع لاک ڈاؤن سے بہت پہلے تیرہ سے پندرہ مارچ تک دو دن جاری رہنے کے بعد ختم ہو گیا۔
بھارت میں کورونا کا پہلا مریض انتیس فروری کو سامنے آیا تھا۔ اس کے باوجود حکومت نے تبلیغی اجتماع سمیت کسی ہندو مسلم مذہبی یا سیاسی اجتماع کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ تبلیغی اجتماع کے اختتام کے تین روز بعد اٹھارہ مارچ کو مرکزی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ ابھی حالات اتنے نہیں بگڑے کہ اجتماعات پر پابندی لگائی جائے۔
چنانچہ لاک ڈاؤن سے پہلے پوری کے مندر میں ہزاروں پجاریوں کا عبادتی اجتماع ہوا۔ مدھیہ پردیش میں نئے وزیرِ اعلی کی تقریب حلف میں بی جے پی کے سیکڑوں حامیوں نے شرکت کی۔ یوپی کے وزیرِ اعلی یوگی ادتیاناتھ نے ایودھیا میں رام مندر کی جگہ پر خصوصی عبادت کا اہتمام کیا جس میں ہزاروں یاتری شریک ہوئے۔
مگر لاک ڈاؤن کے بعد انسانی المیے پر جب حزبِ اختلاف نے سرکار کے لتے لینے شروع کیے توتوجہ ہٹانے کی خاطر بی جے پی کے آئی ٹی سیل، ٹرول بریگیڈ اور طفیلی میڈیا نے ایک ساتھ کورونا جہادیوں کا نعرہ بلند کیا اور یہ تاثر عام کیا گیا کہ کورونا دراصل مسلمان جان بوجھ کر پھیلارہے ہیں تاکہ ہندوؤں سے انتقام لیا جا سکے۔ جب کسی نے توجہ دلائی کہ ہندوؤں کے اجتماعات میں کیا کورونا کا ایک بھی مریض نہیں تھا تو اسے ہندو دشمن قرار دے کر مغلظات کے سیلاب میں ڈبونے کی کوشش کی گئی۔
مقبوضہ جموں کشمیر میں اب تک کورونا کے بیس سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں اور ایک موت بھی ہو گئی ہے۔ مگر چھ ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں ایک دن کی بھی ڈھیل نہیں دی گئی۔ وادی میں ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ دواؤں کی شدید قلت کے ساتھ کورونا سے نہتے ہاتھوں لڑ رہا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر مریض کو اس کے ورثاایک ایمبولینس میں فرضی مردے کی طرح لٹا کر وادی سے جموں لے گئے تاکہ کم ازکم علاج تسلی بخش ہو سکے۔ مگر جموں کے قریب ایک چیک پوسٹ پر کھڑے پولیس والوں کو شک ہو گیا اور انھوں نے "مردے سمیت " ایمبولینس میں سفر کرنے والوں کو ڈرائیور سمیت حراست میں لے کر جیل بھیج دیا۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کشمیر میں طبی سہولتوں کی کیا حالت ہے۔
پاکستان میں بھی صورت ِحال کو شروع میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جب پہلا مریض ایران سے تفتان کے راستے آیا تو سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ پھبتیاں اور فقرے بازی شروع ہوگئی۔ گویا مریض نہ ہو آٹھواں عجوبہ ہو۔ ابتدا میں جتنے بھی مریض دریافت ہوئے وہ ایران سے ہی تفتان پہنچنے تھے۔ مگر انھیں اور ان کے ہمراہیوں کو جس طرح تفتان میں قرنطینہ کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ رکھا گیا اس بدانتظامی نے کورونا کو محدود کرنے کے بجائے اور بڑھا دیا۔
تفتان المئے کے چند دن بعد رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں شریک حضرات میں شامل متاثرین کی خبریں آنی شروع ہو گئیں۔ اگرچہ شروع کی انتظامی غفلت و بے احتیاطی کے بعد انتظامیہ نے قدرے مربوط انداز میں صورتحال کو قابو میں لانے کی کثیر سمتی کوششیں شروع کر دیں مگر تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
صوبہ سندھ کو حالات کی سنگینی کا سب سے پہلے احساس ہوا اور اس نے بلا تاخیر جو بھی بس میں تھا کرنا شروع کیا۔ باقی صوبوں کو دیر میں ادراک ہوا۔ جب کہ وفاق کو سب سے آخر میں کورونا کے خطرے کو سنجیدگی سے لینے کی بابت غور و فکر کی عادت پڑی۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں اگر اب تک کچھ بہتر ہوا ہے تو یہ کہ لاک ڈاؤن سے پہلے لوگوں کو ذہنی تیاری کی مہلت مل گئی۔ اگرچہ ریل سروس کی معطلی کے نتیجے میں کراچی سے ملک کے بالائی علاقوں کو جانے والے مزدوروں اور غربا کو آخری دنوں میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور بالخصوص کراچی کے ریلوے اسٹیشنوں پر اژدھام ہو گیا مگر صوبائی حکومت اس دوران چونکہ ریلیف کے اقدامات کا متواتر اعلان کرتی چلی گئی اور بین الصوبائی بس سروس سب سے آخر میں بند ہوئی لہذا گاؤں جانے کے بیشتر خواہش مند بروقت نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور کہیں بھی ایسے مناظر دکھائی نہیں دیے کہ ایک انسانی ہجوم سیکڑوں میل کے سفر پر پیدل روانہ ہے۔
البتہ امداد اور خوراک گھر کی دہلیز تک پہنچانے کے بجائے ہجوم میں بانٹنے کی عادت نے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس بے احتیاطی میں صرف عوام ہی ملوث نہیں بلکہ خوراک و امداد بانٹنے والے افراد، فلاحی تنظیمیں اور قانون نافذ کرنے والے کچھ ادارے بھی برابر کے قصور وار ہیں۔
نیت بھلے مدد کی ہو مگر نادانی اور بد سلیقگی سے کی جانے والی مدد انسانوں کو کورونا کے اور قریب کر دیتی ہے۔ اس غفلت پر اگر فوری قابو نہ پایا گیا تو کورونا نے اب تک جو تھوڑی بہت مہلت دی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی اور اب تک کی جانے والی محنت دھری کی دھری رہ جائے گی۔