اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں سالانہ اجلاس میں عمران خان کے علاوہ جن دو رہنماؤں نے کشمیر پر واضح گفتگو کی وہ رجب طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد ہیں۔ ٹرمپ اور خلیجی ریاستوں کے سربراہان کا فوکس ایران رہا۔ مودی کی بیشتر تقریر اندرونِ بھارت ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل بتانے میں صرف ہوگئی۔
اگر جامعیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے بہتر اور متوازن خطاب مہاتیر محمد کا تھا۔ چورانوے سالہ مہاتیر محمد ایک ایسے عالمی رہنما ہیں جنہوں نے صرف باتوں کے خربوزے نہیں کاٹے بلکہ اپنے ملک کو ناداری سے اٹھا کر صرف بیس برس کی مدت میں درمیانہ درجے کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا۔
اقوامِ متحدہ میں اپنے ستائیس منٹ کے خطاب میں کہیں محسوس نہیں ہوا کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کسی انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہوں یا اپنی مقرری کی دھاک بٹھا رہے ہوں یا کسی ایک موضوع سے بری طرح لٹک گئے ہوں۔ میں دراصل کیا کہہ رہا ہوں۔ یہ آپ کو مہاتیر محمد کے خطاب کا خلاصہ پڑھ کے زیادہ بہتر سمجھ میں آئے گا۔
" محترم صدرِ مجلس۔ لگ بھگ پچھتر برس پہلے پانچ ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے فاتح ہونے کا دعویٰ کیا اور اس دعویٰ کی بنیاد پر انھوں نے خود کو ویٹو کا اختیار دے کر باقی دنیا پر حکمرانی کا حق اپنے تئیں اپنے نام کر لیا۔ یہ حق اس تنظیم (اقوامِ متحدہ) کو قائم کرتے ہوئے حاصل کیا گیا جس کا منشور ہی جنگوں کا خاتمہ اور تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا قرارپایا۔ یہ ممالک بھول گئے کہ جن انسانی حقوق اور مساوات کے وہ چیمپئن ہیں۔ ویٹو پاور بذاتِ خود ان کے اس دعویٰ کی کتنی بڑی نفی ہے۔
ویٹو پاور کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی بنیادوں پر بٹی ان طاقتوں نے نہ صرف عالمی مسائل کے پرامن حل کا دروازہ بند کر دیا بلکہ تنظیم کے رکن باقی دو سو ارکان کی خواہشات کے احترام سے بھی انکار کر دیا۔ مگر ان ویٹو پاورز کی ڈھٹائی ملاخطہ کیجیے کہ وہ دیگر ممالک کو کہتی ہیں کہ وہ مناسب حد تک جمہوری نہیں۔ یہ پانچوں اپنے ویٹو کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کی دوڑ اور جنگوں کے فروغ کو جائز سمجھتے ہیں۔ لڑائی کی وجوہات ایجاد کرتے ہیں تاکہ کاروبار پھلتا رہے اور کوئی انھیں چیلنج نہ کر سکے۔ کیا یہی مقصد تھا اقوامِ متحدہ کے قیام کا؟ کیا یہ ڈھانچہ تاحیات اسی طرح رہے گا؟
یہ درست ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی ممالک کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ انھوں نے میدانِ جنگ مغرب سے مشرق میں منتقل کر دیا۔
جنابِ صدر اس حکمتِ عملی کا پہلا ثبوت فلسطینی زمینوں پر قبضے اور نوے فیصد عرب آبادی کو بے دخل کرکے اسرائیل کا قیام تھا۔ تب سے اب تک اس تنازعے نے کئی بڑی جنگوں کو جنم دیا اور ان جنگوں کے کوکھ سے دہشت گردی نے جنم لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ویٹو پاورز اس دہشت گردی کے بنیادی اسباب کی طرف دھیان دیتیں۔ مگر انھوں نے اس کا حل فوجی طاقت اور اقتصادی پابندیوں میں ڈھونڈھ لیا۔ یہ وہ نسخہ ہے جو کبھی بدامنی کی بیماری ٹھیک نہیں کر سکتا۔
جنابِ صدر بلاشبہ جمہوریت آمریت سے بدرجہا بہتر ہے۔ مگر جمہوریت راتوں رات جڑ نہیں پکڑ سکتی۔ جو اس نظام کو جادو کی چھڑی سے نافذ کرنا چاہ رہے ہیں خود انھیں اس نظام کو اپنانے میں صدیاں نہیں تو عشرے ضرور لگ گئے۔ راتوں رات اپنی مرضی کا جمہوری نظام تھوپنے کا مطلب عدم استحکام اور خانہ جنگی ہے۔ کئی ممالک اس ادھ کچے پکے تجربے کے دوران دوبارہ ایک بھیانک شخصی یا عسکری آمریت میں جکڑ دیے گئے۔
مگر یہاں بھی دہرا معیار برقرار ہے۔ قانون کی حکمرانی کی دعویٰ دار ریاستوں کی جانب سے حریفوں کے لیے ہر طرح کی جکڑ بندی کا سامان ہے۔ لیکن جو دوست ہیں انھیں بین الاقوامی قوانین سمیت ہر طرح کی روایت توڑنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ مثلاً اسرائیل کو کھلی چھوٹ ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ تعریف بھی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کا واحد جمہوری ملک ہے۔ مگر جو ممالک دوست نہیں ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ جنابِ صدر واقعی اس دنیا میں انصاف نہیں ہے۔
جنابِ صدر سامراج سے آزادی کے بعد جن جن نوآزاد ممالک سے اقلیتی نسلوں اور گروہوں کو باہر نکالنے کی ظالمانہ کوشش ہوئی، ان میں سب سے افسوسناک مثال میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے قتل، ریپ اور گھروں کی آتشزدگی جاری ہے مگر ہمارا جو بھی اجتماعی ردِعمل ہے اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کی توقیر اور کم ہو رہی ہے۔
جنابِ صدر ایک اور مثال جموں و کشمیر کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اس خطے پر حملہ ہوا اور قبضہ ہوا۔ اس اقدام کے پیچھے جو بھی وجہ یا جواز ہو غلط ہے۔ بھارت اور پاکستان کو بیٹھ کر مسئلے کا پرامن حل نکالنا چاہیے۔ اس معاملے میں اقوامِ متحدہ کو نظرانداز کرنا قانون کی بالا دستی کے تصور کو نظرانداز کرنے کے برابر ہے۔
جنابِ صدر آزاد تجارت کی بہت بات ہوتی ہے مگر اس کے پردے میں جو قوانین و ضابطے بنائے جا رہے ہیں، وہ امیر ممالک خفیہ طور پر بناتے ہیں اور پھر غریب ممالک پر تھوپ دیتے ہیں۔ ان قواعد و ضوابط کا مقصد غریب معیشتوں کی قیمت پر امیر ممالک کی کمپنیوں کے منافع کو یقینی بنانا اور تحفظ دینا ہے۔ غریب ممالک کو امید نہیں کہ نوآبادیاتی دور میں انھیں جس طرح لوٹا گیا اس کا کوئی ازالہ کرے گا۔ یہ ممالک بس اتنا چاہتے ہیں کہ انھیں بھی مساوی بنیادوں پر ترقی کرنے کی اجازت ہو۔
جنابِ صدر ملائشیا بحیثیت ریاست کسی بھی تنازعے کے حل کے لیے جنگ کے خلاف ہے۔ تنازعات کے حل کے بہانے انسانوں کو ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اب تک قدیم دور سے جدید تہذیبی دور میں داخل نہیں ہو سکے۔ حالانکہ جنگ کا سہارا لیے بغیر بھی تنازعات بات چیت، ثالثی اور عدالت کے ذریعے نمٹائے جا سکتے ہیں۔ ملائشیا نے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تمام تنازعات دو طرفہ بنیادوں پر بات چیت یا بین الاقوامی قانون کی مدد سے حل کیے ہیں۔ کچھ میں ہم ہارے کچھ میں جیتے مگر کوئی انسانی جان ضایع نہیں ہوئی۔
جنابِ صدر مجھے یہ بات کبھی پلے نہیں پڑی کہ ہم اپنے ایک ایک انچ کے لیے جان لے لیں گے یا دے دیں گے۔ ایک ایک انچ کے لیے جنگ اس انچ کی قیمت سے کہیں بھاری قیمت لے لیتی ہے۔ جنگ جیتنے کا مطلب ہے کہ کسی ایک کو ہارنا ہے۔ اگر ہم کسی بھی تنازعے کے حل کے لیے جنگ کے علاوہ کوئی بھی راستہ اختیار کریں تو بے شک کوئی ایک ہارے یا جیتے مگر مرے گا بہرحال نہیں، نہ ہی کسی کی زمین برباد ہوگی۔
جنابِ صدر اس کرہِ ارض کا ماحول جس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے فوراً کچھ نہ کیا تو اتنے جمع ہونے والے ہتھیار ہمارے کس کام آئیں گے جب ہم ہی نہ ہوں گے۔ کیا ہتھیاروں پر صرف ہونے والا پیسہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہو رہے نقصان کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنے کا وقت آن نہیں پہنچا؟ کیا ہلاکت خیزی کے لیے مختص بجٹ کا رخ زندگی کی بقا کی جانب موڑنے کے لیے اوسط ذہانت کے بجائے کوئی غیر معمولی ذہانت درکار ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے؟
جنابِ صدر میں سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں ہوں مگر لگتا ہے سرمایہ داری پاگل ہو چکی ہے۔ مجھے وحشت ہوتی ہے جب کمپنیاں اور افراد کھربوں ڈالر کمانے کی باتیں کرتے ہیں۔ کسی بھی شخص یا کمپنی کے پاس بے تحاشا سرمایہ خطرناک عمل ہے۔ بے تحاشا و بے لگام سرمایہ باقیوں کو جھکا سکتا ہے، ان کی پالیسیوں اور ذہنوں پر قبضہ کر سکتا ہے اور دنیا کو ایسی سمت میں ہانک سکتا ہے جہاں کوئی بھی نہیں جانا چاہتا۔
جنابِ صدر ہر کوئی بل گیٹس نہیں ہوتا جو اپنے منافع میں دوسروں کو بھی تھوڑا بہت حصہ دار بنائے۔ بے تحاشا منافع کی ہوس ہم سب کی زندگیوں کو کم سے کم کرتی چلی جا رہی ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ہنگامی ضرورت ہے بین الاقوامی سطح پر نئے اینٹی ٹرسٹ قوانین بنانے کی تاکہ زیادہ سے زیادہ وسائل و سرمایہ کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہونے کو روکا جا سکے۔ بصورتِ دیگر آخر میں بس ایک ہی ہاتھ بچے گا جو ہم سب کا گلا گھونٹ کر خود بھی خودکشی کر لے۔