جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کچھ عرصے پہلے یہ قصہ سنایا کہ مرحوم حکیم محمد سعید نے جب کراچی کے مضافات میں مدینتہ الحکمت کے نام سے ایک علمی شہر بسایا تو سب سے زیادہ توجہ اس شہرِ علم کے کتب خانے " بیت الحکمت " پر دی۔ میں حکیم صاحب کے جمع کردہ کتابوں کے اس عظیم الشان ذخیرے کو دیکھ کے خاصا متاثر ہوا تو حکیم صاحب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ کہنے لگے، پیرزادہ میں اتنا بڑا کتب خانہ صرف کچھ لوگوں کی علم سے بے بہرہ ناخلف اولاد کی مہربانیوں سے ہی بنا پایا ہوں۔
میں نے حکیم سعید کی جانب تکتے ہوئے پوچھا کیا مطلب؟ کہنے لگے کہ پیرزادہ جب میں نے سنا کہ فلاں فلاں صاحب کے مرتے ہی ان کے اہلِ خانہ نے پہلے تو ان کے کتابوں کے ذخیرے کو اپنے گیرج، بیسمنٹ، انیکسی یا سرونٹ کوارٹر میں منتقل کردیا اور پھر ایک دن کوئی پرانی کتابوں کا سوداگر انھیں تول کر بیس پچیس ہزار میں لے گیا اور پھر پورا کتب خانہ ریگل کے فٹ پاتھ پر کتاب در کتاب بکنے کے لیے رکھ دیا گیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ ایسے تمام عاشقانِ کتب کی فہرست بنوائی جائے جن کی عمر ساٹھ پینسٹھ برس سے زائد ہے۔
اور پھر چند علمی جاسوسوں کی ڈیوٹی لگائی کہ جونہی ان میں سے کوئی اس جہان سے کوچ کرے۔ اس کا کتب خانہ منہ مانگے داموں خرید لیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ ٹھیلوں اور فٹ پاتھوں پر منتقل ہوجائے۔ چنانچہ تم جس کتب خانے کو میرا کارنامہ سمجھ رہے ہو بخدا اس میں میرا حصہ اتنا ہے کہ میں نے ان یتیم و بے سہارا کتابوں کو ایک چھت فراہم کردی ہے اور بس۔ "
کتابوں کی خریداری اور ان کی قدر کا رونا اپنی جگہ۔ لیکن اس عادت کی حوصلہ افزائی کے لیے پبلشرز اور بک اسٹورز بھی کتابی میلوں کے علاوہ شائد ہی کسی پڑھنے والے کو دس فیصد سے زائد رعایت دیتے ہوں۔ کچھ نجی اشاعت کار ممبر شپ اسکیم کے تحت پندرہ فیصد تک رعایت دیتے ہیں البتہ کتابوں کی اشاعت کا سرکاری ادارہ نیشنل بک فاؤنڈیشن اپنی شایع کردہ کتابوں پر پچاس سے پچپن فیصد رعایت دیتی ہے۔
مگر یہ سرکاری ادارہ بھی محدود بجٹ کے سبب تمام اہم موضوعات پر کتابیں شایع کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ لہذا ضرورت کسی ایسے ادارے کی ہے جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ دیگر عالمی زبانوں کی تعلیمی و سائنسی و ادبی کتابوں اور تحقیق کو اردو میں شایع کرے۔ اس باب میں ہمارے بزرگ جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمے کے قصے آہیں بھر بھر کے سناتے ہیں جہاں جوش صاحب اور مولانا مودودی جیسے اکابرین نے بھی وقت گذارا۔ نظام شاہی کے اس دارالترجمہ کی شہرت یہ تھی کہ اس دور میں جو بھی دستیاب اہم سائنسی و غیر سائنسی لٹریچر باقی دنیا بالخصوص یورپ میں شایع ہوتا تھا، اس کا اردو ترجمہ حیدرآباد دکن کے دارالترجمہ میں فوراً کتابی شکل میں شایع کرتا۔ یوں سوبرس پہلے عثمانیہ یونیورسٹی برصغیر کا واحد علمی ادارہ تھا جہاں جدید سائنسی علوم کی تدریس بھی اردو میں ہوتی تھی۔
ویسے بھی ترجمے کا فن مسلمانوں کی میراث ہے۔ مغرب کے دورِ جہالت میں دبے قدیم یونانی لٹریچر کو اگر آٹھویں، نویں اور دسویں صدی کے عرب مترجم دستیاب نہ ہوتے تو شائد یونان کا علمی چہرہ سامنے ہی نہ آتا اور پھر جانے مغرب کا علمی انقلاب اور کتنی صدیاں آگے کھسک جاتا۔
میری نسل کو اگر ماسکو اور بیجنگ کے غیر ملکی زبانوں کے اشاعت گھروں میں ترجمہ شدہ روسی و چینی لٹریچر سستے داموں میسر نہ آتا تو شائد ہم لوگ کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح برِ صغیری ادب کے گرد ہی گول گول گھوم رہے ہوتے۔
چند برس پہلے پراگ میں چار ماہ گذارنے کے سبب مجھے احساس ہوا کہ کسی بھی معاشرے کو ذوقِ مطالعہ میں جکڑنے اور اسے باقی دینا کے علمی رجحانات سے جوڑنے کے لیے فوری اور معیاری ترجمہ کتنا اہم ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ چیک ری پبلک کی آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ اور خواندگی کا تناسب ننانوے فیصد ہے۔ صرف پراگ میں کتابوں کی اسی سے زائد بڑی دوکانیں ہیں اور ان میں نصف کتابیں وہ ہیں جو پچھلے ایک برس کے دوران دنیا کی مختلف زبانوں میں شایع ہوئیں اور اب چیک زبان میں دستیاب ہیں۔
پاکستان میں لوگ بھلا ایک دوسرے کو کیسے جانیں جب کہ بین الاقوامی علمی کام تو رہا ایک طرف، علاقائی زبانوں کا نوے فیصد لٹریچر نہ تو قومی زبان میں اور نہ ہی کسی دوسری علاقائی زبان میں منتقل ہوپایا ہے۔ اگر کسی نے اپنے طور پر اکا دکا چیزوں کا ترجمہ کربھی دیا ہے تو اس کی یہ کوشش اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ یہاں اقبالیات پر ایک پورا ادارہ کام کررہا ہے، مقتدرہ قومی زبان میں ڈکشنری کے ایک ایک لفظ پر پسینہ بہہ رہا ہے اور اب ڈجیٹل دور کے شایانِ شان کام ہو رہا ہے۔ اردو سائنس بورڈ غیر سائنسی متروک کتابیں نکال کے لا رہا ہے۔ مجلسِ ترقی ادب اپنی بقا کے جواز کے لیے چھوٹی موٹی تقریبات کرتی رہتی ہے۔ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بھی کلاسیکل ادب کو ری سائیکل کرنے میں دلچسپی لیتی ہے۔ لیکن اگر نہیں ہے تو قومی دارالترجمہ نہیں جو پاکستان کے علاقائی ادب اور خود پاکستان کو بین الاقوامی علمی و مطالعاتی نقشے میں رکھ سکے۔
عام لوگ بالخصوص نئی نسل مطالعے کی پیاسی ضرور ہے لیکن اردو میں اسے زیادہ تر ری سائکلڈ یا مذہبی و فرقئی لٹریچر ہی دستیاب ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی کتابی نمائش میں چلے جائیے۔ ہاں انگریزی کی کتابیں مہنگی ہونے کے باوجود فروخت ہو رہی ہیں۔ کیونکہ اچھے انگریزی میڈیم اسکولوں اور مطالعہ دوست مڈل کلاس اقلیت میں اپنے بچوں کو جدید لٹریچر سے جوڑنے کا رجحان معاشی آسودگی کے سبب پہلے کی نسبت زیادہ فروغ پا رہا ہے اور کتابی میلوں کے فیشن اور ان میلوں میں معروف مصنفوں کی شرکت اور انھیں سننے اور ملنے کا گلیمر اس رجحان کو بڑھانے میں خاصا کردار نبھا رہا ہے۔
لیکن جو بچے اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں اور جن کے والدین کے معاشی حالات بھی زیادہ بہتر نہیں۔ ان کے لیے زنگ آلود گرد سے اٹے شیلفوں والی اسکولی و پبلک لائبریریاں ہیں۔ جہاں آخری کتاب شائد انیس سو اڑسٹھ میں خریدی گئی ہو۔ ہاں مگر لاڑکانہ کی سر شاہ نواز بھٹو لائبریری میں آج بھی صبح دروازہ کھلنے سے پہلے طلبا اور سینئر سٹیزنز کھڑے ہوتے ہیں کہ کب دروازہ کھلے اور کب وہ اندر جا کے کرسیوں پر قبضہ کریں تاکہ دن بھر مطالعے کے لیے بیٹھنے کی جگہ مل سکے۔ یہی حال بہاولپور کی پبلک لائبریری کا بھی دیکھا اور جی خوش ہوگیا۔ مگر یہ جی ہر نجی اشاعت گھر اور ہر پبلک لائبریری میں جا کر کب خوش ہوگا؟