بزدل کو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بزدل ہے۔ مگر بہادر کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کتنا بہادر ہے۔ کیونکہ بزدلی سیان پن کی دین ہے اور بہادری بے ساختگی کا عطیہ۔
کیا آپ وادیِ کالام کی ان پڑھ مہر النسا کو جانتے ہیں جس کے شوہر نے سوات کے طالبان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اور جب پانچویں مرتبہ طالبان الٹی میٹم دینے آئے کہ یا تو ہم میں شامل ہوجاؤ یا پھر اپنا اسلحہ ہمارے حوالے کردو۔ اس پر مہر النسا کا میٹر گھوم گیا اور اس نے کلاشنکوف پکڑ کے چھ کو ہلاک اور دو کو زخمی کردیا اور اپنا گھر نہیں چھوڑا۔
یہ واقعہ ہے انیس سو نو کے موسمِ گرما کا۔ صرف ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے مہر النسا کا انٹرویو نشر کیا اور پھر یہ داستان وقت کے بوجھ تلے دب دبا گئی۔ آج مہر النسا کہاں ہے؟ہے بھی کہ نہیں۔ کیا کسی کے پاس وقت ہے کہ معلوم کرے۔
چھبیس مئی دو ہزار تیرہ کو گجرات کے قصبے کنجاہ کے قریب منگووال میں صبح ہی صبح چوبیس بچے اپنی استانی سمیعہ نورین کے ہمراہ اسکول وین میں روانہ ہوئے۔ وین کی پٹرول ٹنکی پھٹ گئی۔ صرف فرنٹ ڈور کھل پایا۔ باقی دروازے ناقص ہونے کے سبب بروقت نہ کھل سکے۔ سترہ بچے اور استانی جھلس کے مرگئے۔ سات بچے بچا لیے گئے۔ ان سات میں سے تین کو سمیعہ نورین نے وین کی کھڑکی سے باہر دھکیلا اور باقی بچوں کو بچانے کے لالچ میں خود نہیں بھاگی اور شعلوں کا لقمہ بن گئی۔ آپ میں سے کوئی؟ جسے آج اس بہادر ٹیچر کی کہانی یاد ہو؟
عثمان پبلک اسکول کراچی کے پرنسپل اور جماعتِ اسلامی کراچی کے جواں سال نائب امیر نصراللہ شجیع اپنے طلبا کو شمالی علاقہ جات کے مطالعاتی دورے پر لے گئے۔ دو جون دو ہزار چودہ کو وہ بالاکوٹ میں دریائے کنہار کے کنارے پر تھے۔ ایک بچے کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اچھلتے پھاندتے دریا میں جا گرا۔ نصراللہ شجیع نے اسے بچانے کے لیے منہ زور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ مگر دریا انھیں بھی نگل گیا۔ کچھ دن میڈیا پر اس بے مثال بہادری کی واہ واہ ہوئی اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
کیا خاکروب پرویز مسیح کسی کو یاد ہے جو بیس اکتوبر دو ہزار نو کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے کیمپس میں طالبات کی کنٹین کے باہر ایک خود کش بمبار سے لپٹ گیا اور اسے کنٹین میں نہیں گھسنے دیا۔ چند منٹ بعد یونیورسٹی کی فیکلٹی آف شریعہ میں ایک اور خود کش پھٹ گیا اور اپنے ساتھ چھ طلبا و طالبات بھی لے گیا۔ صرف ایک ٹی وی چینل نے پرویز مسیح کے گھر پے جا کے اہلِ خانہ سے بات چیت کی۔ اور پھر یہ رپورٹ اس تعارف کے ساتھ ٹیلی کاسٹ ہوئی۔
" اور آئیے دیکھتے ہیں جرات و بہادری کی ایک بے مثال داستان۔ کس طرح ایک خاکروب نے اپنی جان دے کر طالبات کو بچایا اور مسیحی ہوتے ہوئے سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا "۔ ( میں قربان اس تعارف کے )۔
کیا ہنگوکے گورنمنٹ ہائی اسکول ابراہیم زئی کا نویں جماعت کا طالبِ علم سولہ سالہ اعتزاز حسن اب تک یاد ہے جو چھ جنوری دو ہزار چودہ کو اسکول کے باہر ایک خود کش بمبار سے لپٹ کے شہید ہوگیا اور اندر موجود ایک ہزار کے لگ بھگ بچوں کی جان بچا لی۔
اس واقعہ کی ذمے داری لشکرِ جھنگوی نے قبول کی۔ خیبر پختون خواہ حکومت نے اعتزاز کے اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے ایک ٹرسٹ اور اعتزاز حسن فنڈ بنانے کا اعلان کیا۔ حکومتِ پاکستان نے ستارہِ شجاعت کا اعلان کیا۔ حقوقِ انسانی کے بین الاقوامی کمیشن نے بہادری کا عالمی ایوارڈ اس کے نام کیا اور موقر انگریزی جریدے ہیرالڈ نے اسے دو ہزار چودہ کا مین آف دی ایئر قرار دیا۔ کوئی فالو اپ کرے گا کہ اعتزاز کے اہلِ خانہ سے کیا کیا وعدے ہوئے اور کتنے نبھائے گئے۔
ہاں سولہ دسمبر ابھی ایک دن پہلے ہی گذرا ہے۔ آج پانچ برس بعد کتنے پاکستانیوں کو آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل اور تین بچوں کی ماں طاہرہ قاضی یاد ہے جنھوں نے ایک ہزار بچوں میں سے بیشتر کو اسکول سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا مگر خود جگہ چھوڑنے کے بجائے مرنا پسند کیا۔
کیا اسی آرمی اسکول کی چوبیس سالہ ٹیچر افشاں احمد بھی یاد ہے۔ جس نے کلاس روم میں داخل ہونے والے حملہ آور سے کہا " پہلے مجھے مارو۔ اپنے سامنے اپنے بچوں کی لاشیں نہیں گرنے دوں گی"۔ اور پھر حملہ آور نے پٹرول چھڑک کے افشاں کی خواہش پوری کردی۔ جلتی ہوئی افشاں چیختی رہی۔ بھاگ جاؤ بچو۔ بھاگ جاؤ۔
اسی اسکول کی کمپیوٹر سائنس کی ٹیچر فرحت جعفری بھی یاد ہے؟ جو اپنے بچوں کے آگے یوں کھڑی ہوگئی جیسے سب گولیاں خود ہی جھیل لے گی۔ ہاں یہ سب اس دن اسکول جانے والے سب بچوں کو تا زندگی یاد رہیں گے بھلے کسی اور کو رہیں نہ رہیں۔
جتنے بھی نام میں نے اب تک لیے حرفِ آخر نہیں۔ ان کے علاوہ بھی سیکڑوں ایسے ہیں جنھوں نے اپنی استطاعت و طاقت سے بڑھ کے بے مثال جرات و بہادری دکھائی ہوگی۔
یہ وہ داستانیں ہیں جنھیں کسی اعتراف، انعام اور تمغے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اعتراف، انعام اور تمغے کو ایسے لوگوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ اس لیے کسی کو کچھ ملا بھی تو کیا، نہ بھی ملا تو بھی کیا۔۔۔ کچھ اگر ہے تو بس اتنا کہ زندہ قومیں جرات و بہادری کے ہر پیکر کا ریکارڈ رکھتی ہیں اور ان کی داستان و یاد اگلی نسلوں کو تاریخ اور نصاب کی شکل میں سونپ جاتی ہیں۔ بے حسی کے لقوے کی ماری قوموں کے لیے ایسا کرنا قطعاً ضروری نہیں۔
بے مثال بہادروں کے یوم منانے، قومی عمارتیں اور شاہراہیں معنون کرنے، اہم چوکوں پر مجسمے نصب کرنے (آخر جا بجا نصب میزائل بھی تو مجسمہ ہی ہیں )، ان کے مقبرے بنانے اور ان کے نام پر ایوارڈز تخلیق کرنے سے کس نے روکا ہے؟ وطن اور اہلِ وطن کے لیے جان دینے والوں اور زندہ محسنوں کو آخر تیری میری وکالت کی کیوں ضرورت پڑے؟
جب آپ اپنے محسنوں اور بہادروں کے لیے بہت کم کرتے ہیں یا کچھ نہیں کرتے اور دنیا کرتی ہے تو پھر آپ کو دنیا بری لگنے لگتی ہے۔
اگر کسی صاحب کو پاکستان میں کہیں شاہراہِ مہرالنسا، سمیعہ نورین میموریل پارک، نصراللہ شجیع کمیونٹی ہال، پرویز مسیح یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی اور طاہرہ قاضی چوک نظر آئے تو ضرور بتائیے گا۔