پیسہ اور آزمائش۔ دونوں صورتوں میں آدمی کا سارا ملمع اتر جاتا ہے، قلعی اکھڑ جاتی ہے، اصلیت دکھ جاتی ہے اور اندر پرت در پرت پوشیدہ اچھائی اور برائی یوں سامنے آ جاتی ہے گویا رنگین ایکسرے فلم۔
جب پیسہ ملتا ہے تو یا ہل من مزید کی لالچ اسے ترنت گود لے لیتی ہے یا پھر سخاوت کی چادر اسے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ پیسے والا یا تو انتہائی کنجوس ہو گا یا پھر دوسروں کے دکھ درد بانٹنے والا۔ یا تو وہ اسے دانتوں سے پکڑ کے رکھے گا یا دونوں ہاتھوں سے لٹا دے گا یا پھر وہ چھتری بنا لے گا جس کے نیچے اپنے پرائے پناہ لے سکیں۔ پیسہ رحم دل کو اور نرم دل بنا دیتا ہے اور ظالم کو سفاک میں بدل دیتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے، لالچ مستقل غلامی ہے۔ ایسے غلاموں کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ زائد از ضرورت پیسہ حاجت روائی میں صرف ہو تو سامانِ اجر ہے۔ تجوری میں پڑا رہے تو ردی کا ڈھیر اور دھات کا ذخیرہ۔ پیسہ ہر طریقے اور ہر ہتھکنڈے سے صرف جمع کرنا اور خیر کی نیت سے خرچ نہ کرنا کوئی گن نہیں ایک سنگین نفسیاتی بیماری ہے۔
یہ نفسیاتی بیمار اس راز سے قبر تک ناواقف رہتے ہیں کہ پیسے سے موت تو خریدی جا سکتی ہے مگر زندگی کا ایک اضافی لمحہ تک نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ پیسے سے بستر تو خریدا جا سکتا ہے مگر نیند نہیں۔ دوا لی جا سکتی ہے مگر صحت نہیں۔ جھریاں مٹائی جا سکتی ہیں مگر جوانی مول نہیں ملتی۔ اختیار خریدا جا سکتا ہے احترام نہیں۔ نفرت خریدی جا سکتی ہے محبت نہیں۔ حال خریدا جا سکتا ہے مگر نہ ماضی بدلا جا سکتا ہے نہ مستقبل کو اپنی خواہش کی کھٹالی میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ویکسین خریدی جا سکتی ہے مگر وائرس نہیں۔ جسم خریدا جا سکتا ہے روح نہیں۔ بدہیتی چھپائی جا سکتی ہے مگر حسن نہیں۔ پرندے خریدے جا سکتے ہیں مگر چہچہاہٹ نہیں۔ پھول خریدا جا سکتا ہے مگر اس کا کھلنا مرجھانا نہیں۔ سفر خریدا جا سکتا ہے مگر منزل نہیں۔
یہی سابقے لاحقے کڑے وقت یعنی آزمائش کے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ستارے گردش میں آتے ہی حواس کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ لوگ دورِ گردش میں بھی قدم جمائے رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ پہلے تھپیڑے میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور کچھ لوگ ٹوٹے ہوؤں کو اٹھانے، جوڑنے اور سہارا دینے میں کھپ جاتے ہیں۔ کچھ ایک جھٹکا لگتے ہی عدم تحفظ کا اس قدر شکار ہو جاتے ہیں کہ سو برس کا سامان جمع کر لیتے ہیں جانے کل ہو نہ ہو مگر یہ نہیں سوچتے کہ کل وہ بھی رہیں گے کہ نہیں۔ اور کچھ وہ بھی ہیں جو کل کس نے دیکھا ہے سوچ کر آج درپیش مسائل سے نبرد آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
کچھ وہ ہیں جو اپنے کواڑ بند کر لیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو سارے در کھول دیتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو اپنی بزدلی اور نکھٹو پن کو تاویل و جواز کی پوشاک پہنا دیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو سیدھی سیدھی بات کو شمشیرِ بے نیام کر کے کیسی بھی آزمائش سے دو دو ہاتھ کرنے میدانِ عمل میں کود جاتے ہیں۔
کچھ وہ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے فلسفہ دانیوں میں خود بھی الجھتے اور دوسروں کو بھی الجھاتے ہیں اور کچھ کرنے والوں میں کیڑے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اور کچھ ہیں جو آزمائش کو موشگافیوں کے بھالے سے نہیں بلکہ عمل اور کام سے روکتے ہیں۔ غلطیاں بھی کرتے ہیں اور پھر ان غلطیوں سے سیکھتے بھی ہیں۔ گرتے بھی ہیں مگر اسی جگہ پڑے رہنے کے بجائے پھر کپڑے جھاڑ کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
کچھ ہیں جو اپنی بے عملی کو دعا کی اداکاری اور حلیے کی ریاکاری سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ ہیں جو ایک ہاتھ میں کشکولِ دعا کا اور دوسرے ہاتھ میں دوا رکھتے ہیں۔ کچھ وہ بدحال اور خوشحال ہیں جو صرف بھیک مانگنے میں مبتلارہتے ہیں اور کچھ ہیں جنھیں بانٹنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔
بے شک وقت کی یادداشت ناقابلِ شکست ہے۔ وہ آدم زادے بھی یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے خلق کی مجبوریوں، بے بسی، بے چارگی و نارسائی کو سامانِ تجارت سمجھ کر بولی لگائی اور وہ انسان بھی یاد رہیں گے جنہوں نے جان مال لگا کر اس بے بسی، مجبوری و نارسائی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش کی۔ خون دینے والے مجنوں بھی یاد رہیں گے اور چوری کھانے والے مجنوں بھی۔ ہراول دستے میں لڑنے والے بھی یاد رہیں گے اور انگلی کٹا کے شہیدوں میں نام لکھوانے والے بھی یاد رہیں گے۔ موت کو بھولنے والے بھی یاد رہیں گے اور موت کے جبڑوں سے زندگی چھیننے والے یا کوشش کرتے کرتے زندگی ہار جانے والے فاتحین بھی یاد رہیں گے۔ یہ وقت بھی گذر جائے گا جیسے وہ وقت گذر گیا مگر وقت کی یادداشت کبھی نہیں گذرے گی۔
مغرور نہ ہو تلواروں پر، مت پھول بھروسے ڈھالوں کے
سب پنا توڑ کے بھاگیں گے، منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے
کیا ڈبے ہیروں موتی کے، کیا ڈھیر خزانے مالوں کے
کیا بقچے تاش مشجر کے، کیا تختے شال دو شالوں کے
کیا سخت مکاں بنواتا ہے، کھم تیرے بدن کا ہے پولا
تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے، واں گور گڑھے نے منہ کھولا
کیا رینی، خندق، رند، بڑے، کیا برج، کنگورا، انمولا
گڑھ، کوٹ، رہکلہ، توپ، قلعہ، کیا شیشہ، دارو اور گولا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ