پاکستان میں شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو ناموس رسالت اور فلسفہ ختم نبوت کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار نہ ہو۔ کون کمبخت ہو گا جو اسم محمد ﷺ پہ لبیک نہ کہے۔ لیکن کیا رسول پاک ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ ان کی تعلیمات پر من و عن عمل کیا جائے اور ان کے اسوہ حسنہ کی غیر مشروط پیروی کی جائے۔ جس رسولِ آخر الزمانؐ کے پاس غیر مسلم اپنی املاک امانت رکھواتے تھے آج ان کے نام پر مسلمانوں کی املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے اور ہنگامہ کار اسی اسلامی مملکت کے باوردی اہلکاروں کو شہید کر رہے ہیں۔ وطن عزیز میں جو منظر پچھلے دو تین دنوں میں دیکھنے کو ملے انہوں نے پوری قوم کو ندامت کے پسینے میں شرابور کر دیا ہے۔ بجائے اس کے کہ قانون کا آہنی ہاتھ قانون شکنوں کو اپنی گرفت میں لیتا، پولیس کے اہلکار اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتے نظر آئے۔ ریاست کی طاقت ہوا میں تحلیل ہوتی نظر آئی، یقینا یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ریاست بے بس نظر آئی۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم اور ان کی سیاسی جماعت اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ دھرنا دینے کے سپیشلسٹ ہیں۔ آج خود انہیں ایسے دھرنوں کا سامنا ہے، کالعدم جماعت اس سے پہلے بھی وطن عزیز کو مفلوج کر چکی ہے اور انہیں کسی مثالی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ ظاہر ہے ان کے عزم کو تقویت ملی اور وہ آج پھر برسر پیکار ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون پوری قوت سے نافذ ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو نیب میں طلب کیا جائے تو وہ اپنے جتھوں کے ساتھ نیب کے دفتر پر حملہ آور ہوتے ہیں اور حکومت کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں، عام آدمی کے لئے نیب ایک نہایت فعال ادارہ ہے، کاروباری لوگ پیشیاں بھگتتے ہیں اور سزا پاتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے جو صرف عام آدمی کے لئے ہے۔ اس سے پہلے یہ قوم ایم کیو ایم کو بھی بھگت چکی ہے۔ ایک شخص کے حکم پر کراچی شہر بند ہو جاتا تھا۔ بھتہ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ بوری بند لاشیں عام تھیں، سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کیا جاتا تھا اور عدالتیں خاموش تماشائی تھیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائیں اور بڑے بڑے لیڈروں نے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر حاضریاں دیں، جس کا نام ہی دہشت کی علامت تھا۔ ایم کیو ایم کے طرز سیاست اور ان کو برداشت کرنے کی روش نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
کراچی کے ایک گینگ وار سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور ایسے ایسے سنسنی خیز جرائم سامنے آئے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے لگتا تھا کہ عزیر بلوچ جیسے بڑے مجرم کے لئے بڑی سے بڑی سزا بھی ناکافی ہو گی۔ ان کے خلاف درجنوں مقدمات درج کئے گئے اور اب ماشاء اللہ روزانہ کی بنیاد پر عزیر بلوچ ایک مقدمے سے باعزت بری قرار پاتے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب وہ سب مقدموں سے باعزت بری ہو جائیں گے اور اپنی ہمدرد سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑتے نظر آئیں گے یا سینٹ میں جلوہ افروز ہوں گے۔ ایک پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان سے صوبائی سطح کے سوال نہ پوچھے جائیں۔ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر وفاقی وزیر داخلہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں تو پھر کون ان سوالوں کا جواب دے گا۔
شہباز شریف کے خلاف نیب میں اربوں روپے کی کرپشن کے کیس زیر تفتیش ہیں۔ وزیر اعظم سے ایک پریس بریفنگ میں یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے عدالت کے فیصلے پر تنقید سے تو گریز کیا لیکن اس سارے معاملے کی ذمہ داری معاشرے کے کاندھوں پر ڈال دی۔ خود انہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، کیا نیب کی ذمہ داری نہیں کہ وہ بروقت اپنے گواہ پیش کرے۔ ضرورت سے زیادہ گواہ نہ بنائے۔ اچھے وکیل پیش کرے اور بروقت کیس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔ سالہا سال کیس چلانے کے بعد اگر ریفرنس ہی نہ پیش کیا جائے تو ذمہ داری کس کی ہے۔ نیب نے آج تک کسی بڑے مجرم کا کیس پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ ملزم اکثر و بیشتر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے رہا ہوئے۔ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا معاشرہ تشکیل دیں کہ مجرم کو سزا مل سکے۔ وزیر اعظم کا کردار ایک مبلغ کا کردار نہیں ہے کہ وہ ہر وقت وعظ کرے کہ اسلامی معاشرہ کیا ہوتا ہے اور ریاست مدینہ کیا تھی۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرہ تشکیل دیں۔ سزا و جزا کا نظام قائم کریں۔ عدالتوں کی تنظیم نو کریں اور قانونی سقم دور کریں۔ ہر برائی کو سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ آج ان کی حکومت ہے اور ان کی حکومت کا آدھے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اب انہیں موجودہ حالات کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔
ایک اچھا فیصلہ جو حکومت وقت نے کیا ہے، اس کی ستائش ضروری ہے۔ راستے بند کرنے والی جماعت کو کالعدم قرار دینے کی سمری کابینہ نے منظور کر لی ہے۔ یہ عام پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ جس طرح جتھوں کی صورت میں سڑکوں کو بلاک کیا گیا، ہسپتالوں پر حملے کئے۔ سکیورٹی اہلکاروں کو شہید اور زخمی کیا اور ملکی نظم و نسق کو برباد کیا، انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیاسی جماعت کہلائیں اور پاکستان کا نام بدنام کریں۔ خدا کرے کہ حکمران اپنے فیصلے پر قائم رہیں اور اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنائیں۔ ورنہ ایک اور ایم کیو ایم پاکستان میں جنم لے گی، اگر حکومت اس امتحان میں کامیاب ہو گئی تو باقی سیاسی جتھوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی اور مولانا فضل الرحمن بھی پیلی وردی والے جتھوں سے سلامی لینے میں احتیاط برتیں گے۔ ریاست میں ریاست کسی صورت قابل قبول نہیں۔