پی ڈی ایم کے اب تک تین جلسے، گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں منعقد ہو چکے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جلسے بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ آئیے، اس کامیابی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
شہروں میں جب اس قسم کے ایونٹس ہوتے ہیں تو ہر قسم کی تفریح سے محروم عوام دل بہلانے کے لیے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ ان تین شہروں میں بھی یہی ہوا۔ گھر خالی ہو گئے اہل خانہ جلسہ گاہ میں پہنچ گئے، یوں حاضری کے حوالے سے ان جلسوں کا شمار بڑے جلسوں میں ہوتا ہے۔
اس حوالے سے اپوزیشن کی اصل تیاری پر ایک نظر ڈالنا اس لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اتنے لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئیں؟ جلسوں کی تیاری شروع ہونے سے بہت پہلے ملک میں چینی اور گندم کا قحط پیدا کیا گیا اور اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سخت الزامات پر مبنی اتنا شدید پروپیگنڈا کیا گیا کہ عوام واقعی یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ پی ٹی آئی حکومت نا اہل ہے بھوک اور بے کاری یہ دو ایسے مسائل ہیں جو عوام کو براہ راست متاثر کرتے ہیں اور یہی ہوا۔ عوام حکومت سے مایوس ہو گئے۔
دوسرا فیکٹر یہ تھا کہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ پورے شریف خاندان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریف خاندان کے "متحرک" لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے لیکن یہ لوگ بے گناہ نہ تھے ان پر بہت سے الزامات تھے۔ عوام نے کرپشن کے قومی مسئلہ کو وہ اہمیت نہ دی جو اہمیت ملنی چاہیے تھی۔ اس کے برخلاف جیلوں میں بند مجرمین سے زیادہ ہمدردی کا اظہار کیا۔ یوں ایک حمایت حاصل کرنے میں کامیابی ملی، جو ہمدردی کا ایک بڑا سبب بن گئی۔
بدقسمتی سے میڈیا بوجوہ اپوزیشن کو بالواسطہ سپورٹ کرتا رہا جو رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ ادھر حکومت کا حال یہ تھا کہ اس کی پبلسٹی کمیٹی سرے سے ناکام رہی۔ حکومت مخالف بڑے جس کرپشن کا ارتکاب کرتے رہے اسے عمران ہائی لائٹ کرنے میں ناکام رہے کیونکہ عمران کے پاس منصوبہ ساز اور پلانر نام کے لوگوں کا قحط تھا۔ یہ حضرات اندھیرے میں تیر چلاتے رہے۔
سب سے بڑی کمزوری یہ کہ عمران اپنے سیاسی مخالفین کی کرپشن کا سرسری ذکر تو کرتے رہے لیکن بھاری اعداد و شمار کے حوالے سے ان کی کرپشن عوام کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے اور عوام نے کرپشن کے الزامات کو زیادہ اہمیت نہ دی کہ ہماری سیاست میں ایسے الزامات صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چونکہ اپوزیشن کا تعلق اشرافیہ سے ہے اس لیے اشرافیہ ان کے بارے زبان بند کیے بیٹھی رہی۔ بعض ادارے حکومت کے خلاف سخت ریمارکس دیتے رہے جو ہو سکتا ہے ان کے حوالوں سے درست ہوں۔ حکومتی ذرایع کے حوالے سے شریف فیملی پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن حکومت اس کرپشن کے حوالے سے عوام کو متاثر کرنے میں کامیاب نہ رہی۔
سرسری سے ذکر کے بجائے ایک ایک کرپشن کی پوری ہسٹری عوام کے سامنے لائی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہ ہوا۔ جو قلم کار نظریاتی حوالے سے اس کرپشن کے سخت خلاف تھے اور اس اربوں کی رقم کو عوام کی ملکیت سمجھتے تھے اور اس کے خلاف لکھ بھی رہے تھے۔ حکومت کے ارکان ان سے رابطہ کرنے، انھیں ان حقائق اور کرپشن کے اعداد و شمار سے جانکاری دینے میں ناکام رہے۔
میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ٹی وی سے آواز آئی اپوزیشن والے عوام یا ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنی کرپشن کی بھاری رقم بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایسے بہت سے قلم کار ہیں جو اشرافیائی کرپشن کے سخت خلاف ہیں لیکن ان کی معلومات اخباری خبروں تک محدود ہے۔ عمران اینڈ کمپنی کا فرض تھا کہ وہ کرپشن کے حوالے سے اہل قلم کو وہ معلومات فراہم کرتی جو عوام کی نظروں سے دور ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں میں اہلیت کی کمی ہو سکتی ہے لیکن ان کی ایمانداری پر اپوزیشن بھی زبان بند کیے رہتی ہے کہ یہ لوگ کرپشن سے دور ہیں۔ یہ عمران گروپ کا ایک اہم اور مثبت پہلو ہے عمران کے ساتھیوں نے اس اہم ترین مسئلے کا ذکر سرسری انداز میں کیا اس حوالے سے بھرپور اور مصدقہ معلومات عوام کے سامنے نہیں رکھی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن بے فکر اور بے خوف ہوگئی، پاکستان سیاست دانوں کی چراگاہ ہے اور قیام پاکستان کے بہت کم عرصے تک سیاست کرپشن سے پاک تھی پھر کرپشن کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا کہ پاکستان دنیا کو پیچھے چھوڑ گیا، لوگ ارب پتی بن گئے اور ارب پتیوں کی ایک مافیا بن گئی جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر سرگرم ہے۔
میں نے لکھتے لکھتے ٹی وی پر ایک نظر ڈالی۔ ٹی وی پر فضل الرحمٰن فرما رہے تھے "عمران خان کو دسمبر نصیب نہ ہو گا یعنی عمران حکومت دسمبر سے پہلے ختم ہو جائے گی۔" عمران خان الیکشن سے پہلے عوام میں جاتے تھے اور عوام بھی لاکھوں کی تعداد میں ان کے جلسوں میں آتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا عوام سے رابطہ کیوں ختم ہوا۔ کیا عمران جیسا ایماندار لیڈر بے اعتمادی کا شکار ہو سکتا ہے۔ میں جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو ٹی وی پر مبصرین عمران کی ہر پہلو سے تعریف کر رہے تھے اور اپوزیشن کی ہر پہلو سے مذمت ہی کر رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈال کر ایک نئے جذبے کے ساتھ عوام میں آنا چاہیے۔