اسے ہم پیپلز پارٹی کا ایک بڑا کارنامہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی صوبائی حکومت (سندھ)کے دوران تیسر ٹاؤن اسکیم 45 میں 20 ہزار پلاٹوں کی قرعہ اندازی ہوئی یعنی ایمانداری سے اس الاٹمنٹ پر عمل کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ 20 ہزار بے گھر افراد کی رہائش کا انتظام ہوجائے گا جو بے گھر لاکھوں کی فوج میں کمی کا باعث بن سکتا ہے لیکن ملک خاص طور پر کراچی کا شہری جانتا ہے کہ 20 ہزار بے گھر افراد کی آبادکاری سے قبل پلاٹ کے الاٹمنٹ کی پرچیاں فروخت ہونے کا ایک طویل سلسلہ جاری رہے گا۔
پرچی کی فروخت جیسے جیسے آگے بڑھے گی، پرچیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اس کاروبار میں ایسے سرمایہ کار موجود ہیں جو تھوک کے حساب سے پرچیاں خریدتے ہیں۔ پہلی پرچی بیچنے والا کسی اور اسکیم میں پلاٹ حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایسا چکر ہے جس کا اب تک کوئی حکومت علاج نہیں کرسکی۔
اس 20 ہزار پلاٹوں کی قرعہ اندازی ایک ایسے نیک نام ٹریڈ یونینسٹ کے والد عثمان غنی کے فرزند ارجمند سعید غنی وزیر بلدیات نے کی ہے جنھوں نے اپنی صلاحیتوں سے بلدیہ کی وزارت کا سفر طے کیا، مسئلہ یہ ہے کہ حکومتوں کا مقصد بے گھر لوگوں کی آبادکاری ہوتا ہے لیکن حکومت کی یہ معروف پرچی سیکڑوں مختلف ہاتھوں سے گزر کر جب آخری خریدار تک پہنچتی ہے تو اس کی قیمت میں ناقابل یقین اضافہ ہو جاتا ہے اس تجارت کو روکنا اس لیے ممکن نہیں کہ اس میں ایسے ماہر موجود ہیں جو اوپر سے نیچے تک سیٹنگ کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں۔
پاکستان کے بے گھروں میں کمی نہ آنا اسی کاروبار کا نتیجہ ہے بعض سرمایہ کار تھوک کے حساب سے پلاٹوں کی پرچیاں خرید لیتے ہیں اور اس وقت تک پرچیاں اپنے پاس رکھتے ہیں جب تک انھیں پرچی یا الاٹمنٹ کی منہ مانگی قیمت نہیں ملتی۔ بلاشبہ اس کاروبار میں عام اور خاص آدمی ملوث ہوتے ہیں لیکن اس کا اصل محرک منافع ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں یہ محرک اس کاروبار کا لازمہ ہوتا ہے۔ حکومتوں کی اپنی خامیاں بھی اس تجارت کا ایک سبب بنتی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا انتظار کریں۔ انسان بکتا ہے یا پلاٹ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
سعید غنی ایک معروف ٹریڈ یونینسٹ کے صاحبزادے ہیں، چونکہ موصوف بلدیہ کے وزیر مقرر ہیں، اسی لیے بلدیہ کے ایک اہم مسئلے کی طرف ان کی توجہ دلانا ایک بڑی تعداد کے مظلوموں کا کیس متعلقہ وزیر تک پہنچانا ہوگا۔ بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین برسوں سے اپنے واجبات کے لیے پریشان ہیں لیکن اس اہم مسئلے کی طرف اوپر نیچے والے کسی وزیر کی نظر نہیں جاتی، سعید غنی ایک ایسے باپ کا بیٹا ہے جو ٹریڈ یونین میں مزدور طبقے کے لیے جدوجہد کرتا رہا اور اسی جدوجہد کے دوران جان دے دی۔ سعید غنی کو بلدیہ کے ملازمین کے مسائل کو کیٹگرائز کرنا چاہیے۔
کون کتنا مظلوم اور کتنا پریشان ہے، اس کا اندازہ ہوسکے۔ ٹریڈ یونین بھی ایک بڑی کمائی کا ذریعہ ہے ایک سابق ٹریڈ یونین ہونے کی وجہ سے ذاتی طور پر ہمیں اس کا تجربہ ہے کہ جو لوگ ٹریڈ یونین میں ٹریڈ کے لیے آئے انھوں نے خوب کمائی کی، ہم جیسے احمق خیر سے بدھو گھر کو آئے کی بہترین مثال ہیں۔ ٹریڈ یونین میں تنظیم سے ہم وابستہ تھے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ایسے نوجوانوں پر مشتمل تھی جن کا مقصد اس گلے سڑے نظام کو تبدیل کرنا تھا۔ حساس طبقہ ہوتا ہے جو لوگ ایمانداری سے مزدوروں کے لیے کام کرتے تھے، مزدور ان کی بڑی تعظیم کرتے تھے، عثمان غنی کا شمار بھی ایسے ہی مخلص رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے میں اپنا ایک تجربہ ایسے شیئر کرنا چاہوں گا۔
یہ 1972 کی بات ہے ہمیں ہرنیا کا مرض لاحق ہوگیا چونکہ آنت چلنے پھرنے سے نیچے اتر آتی ہے جو ایک عذاب ہوتا ہے، ہم ہرنیا کا آپریشن کرانے کے بعد ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق آرام کر رہے تھے کہ ایک کارخانے کے مزدور اسپتال آگئے۔ کارخانے کی انتظامیہ سے مزدوروں کا مطالبات پر معاہدہ ہو رہا تھا اور مزدوروں کا مطالبہ تھا کہ مزدوروں کی طرف سے فریق ہم بنیں۔ ڈاکٹروں نے ہمیں آرام کا مشورہ دیا تھا لیکن مزدور بضد تھے کہ ہم ان کے ساتھ فیکٹری چل کر مالکان سے معاہدہ کریں۔ ڈاکٹر منع کرتے رہے لیکن ہمارے مزدور دوستوں نے ایک نہ مانی اور ہمیں فیکٹری لائے اور ہم نے ایک کامیاب معاہدہ کرایا۔
سعید غنی کے والد عثمان غنی اپنے اصولوں کے سخت اور بے لوث آدمی تھے۔ مزدور ان کے اسی طرح دوست تھے جس طرح ہمارے۔ ایماندار ٹریڈ یونینسٹوں کے نزدیک دولت ہاتھ کا میل تھی جو لوگ دولت کو پیر کی جوتی اور دھول سمجھتے تھے مزدور ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ عثمان غنی مرحوم بھی دولت کو ہاتھ کا میل سمجھتے تھے، ایماندار لوگ نڈر بھی ہوتے ہیں، غالباً یہ 1969 کی بات ہے کراچی کے مزدور سخت مشکلات میں گھرے تھے۔ بھٹو مزدور کسان راج کی بات کرتے تھے۔ ہم بھٹو سے اس حوالے سے ملنا چاہتے تھے۔ معراج محمد خان نے ہمیں بھٹو سے ملوایا۔ ہم نے مزدوروں کے سنگین مسائل سے بھٹو کو آگاہ کیا۔ بھٹو نے کہا، معراج کو بھیجتا ہوں۔ میں نے کہا، بھٹو صاحب مزدور آپ سے ملنا چاہتے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مزدور کسان راج لانے کی بات کرنے والا ہمارے لیے کیا کرتا ہے۔ بہرحال بھٹو نے کسی اور وقت مزدوروں کے پاس چلنے کا وعدہ کیا۔ رات گئی بات گئی۔
سعید غنی بلدیات کے وزیر ہیں، بلدیہ کے ریٹائرڈ ملازمین 5 سال سے اپنے واجبات کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ ان کے سارے پروگراموں کا انحصار ان کے واجبات پر ہے، چالیس سال سروس کرنے کے بعد ملازم اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اپنے واجبات کے لیے بھاگ دوڑ کرسکے۔ سعید غنی ایک مثالی ٹریڈ یونینسٹ کے فرزند ہیں۔ کیا ان کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ 55 سال سے اپنے واجبات کے لیے خوار ہونے والے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات دلوائیں اور 20 ہزار پلاٹوں کو کاروبار نہ بننے دیں۔