دنیا ایک خطرناک بلکہ وحشت ناک بیماری کی زد میں ہے، ایسی بیماری جو کسی سے چھو جانے سے گلے پڑ جاتی ہے، کسی کے قریب بیٹھنے سے لگ جاتی ہے، ایسی خوفناک بیماری کی موجودگی میں ہمارے بہادر عوام کرکٹ کھیل رہے ہیں، فٹبال کھیل رہے ہیں، کبڈی کھیل رہے ہیں، سی ویو پر ریس لگا رہے ہیں، فٹ پاتھوں پر مجمع لگا کر تاش کھیل رہے ہیں؟ کیا یہ بہادری ہے؟
سندھ کا وزیر اعلیٰ چیخ رہا ہے کہ میرے بھائیو! گھروں میں بند رہو، باہر نہ نکلو کہ باہر ایک خوفناک دشمن ہماری راہ دیکھ رہا ہے جیسے ہی تم گھر سے باہر نکلو گے وہ تمہیں دبوچ لے گا۔ جان ہے تو جہان ہے۔ لیکن عوام پر چیف منسٹر کی گزارشات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
اخبار ٹی وی انسانوں کی سیکڑوں اموات کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن شیر دے پتر کسی کی پرواہ کیے بغیر تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ نتیجہ قبرستانوں میں جگہ نہیں رہی ہے۔ کے ایم سی نئے قبرستان بنا رہی ہے یہ کھلاڑی کسی کے بیٹے ہیں، کسی کے باپ ہیں، کسی کے بھائی ہیں، یہ حضرات یہ جانتے ہیں کہ اگر وہ نہ رہے تو ان کے بال بچے سڑکوں پر مزدوری کرتے یا بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ یہ تماش بین ان حقائق کو جانتے ہوئے بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں، ہاکی کھیل رہے ہیں، فٹ بال کھیل رہے ہیں، کبڈی کھیل رہے ہیں۔
دنیا کے 7 ارب انسان کورونا کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں کورونا ایسی بیماری جس کا کوئی علاج نہیں۔ کینسر ایک لاعلاج بیماری ہے لیکن اس بیماری میں چٹ منگنی پٹ بیاہ نہیں ہوتا یہ بیماری انسان کو بہت آہستہ آہستہ مارتی ہے جب کہ کورونا چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہے۔ لیکن حضرت انسان ان عذابوں سے بے نیاز تماش بین بنا ہوا ہے سڑکوں گلیوں میں کرکٹ کھیل رہا ہے، فٹ بال کھیل رہا ہے، کبڈی کھیل رہا ہے، سی ویو پر گھوڑے دوڑا رہا ہے، کاروں کی ریس لگا رہا ہے، کیا ان کھلاڑیوں کے ماں باپ نہیں، خود ان کے بال بچے نہیں؟
اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا، ماہرین طب دن رات علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس وحشی بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہ ہوسکا۔ ساری دنیا دم سادھے آنے والے وقت کی حشر سامانیوں سے خوفزدہ اپنی قسمت کا کھیل دیکھ رہی ہے۔ لاشیں اٹھ رہی ہیں، عام حالت میں مرنے والوں کے عزیز مرحومین سے لپٹ کر روتے تھے ان کے بچوں کا سہارا بنتے لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ہر عزیز ہر دوست لاش سے دور رہتا ہے لاش کو چھونے کی ہمت نہیں کرتا دوست احباب اس آخری جلوس میں شامل ہونے کے بجائے اس سے دور بھاگتے ہیں کہاں ہے وہ محبت کہاں ہے وہ وارفتگی؟
امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے، اس فطرت کے کھیل کو دیکھنے وہ سپر پاور جو جس پر دل چاہے دوڑ پڑتی تھی آج خود کو کورونا کے پنجے سے محفوظ دیکھنے کے جتن کر رہی ہے، ایران کی مشکیں باندھنے والا امریکا آج کورونا کی باندھی مشکیں کھولنے میں مصروف ہے بہت دن سے میڈیا میں ایران کے خلاف کسی نئی پابندی کا ذکر نہیں آیا۔ ٹرمپ سیلف آئسو لیشن کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، پریس کانفرنسوں خصوصی انٹرویوز سے دل بہلانے والے ٹرمپ اب بھیڑ بھاڑ سے خوفزدہ ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے کل تک امریکا بگ پاور تھا آج ساری دنیا کا بگ پاور کورونا ہے۔
ہمارے عوام بڑے دلیر ہیں موت سے بالکل نہیں گھبراتے لیکن اس پر ان کی نظر بالکل نہیں جا رہی ہے کہ اگر وہ بچوں کے باپ ہیں تو کل بچوں کا کیا ہوا اگر وہ کسی بہن کے بھائی ہیں تو کل بہن کا کیا ہوگا۔ سرکاری ملازمین اور طلبا کو لمبی لمبی چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ دی گئی ہیں سرکاری ملازمین ان چھٹیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ نہ کہ تاش کھیلنے میں وقت گزاریں۔ موجودہ نسل کا ایک کڑا امتحان ہے۔ کیا الرٹ رہ کر گھر میں بند رہ کر ہمارے عوام اس خطرناک وائرس کا مقابلہ کریں گے یا بھیڑ بھاڑ میں جاکر کورونا کا تحفہ ساتھ لائیں گے؟
یہ وقت بہت برا وقت ہے بڑی ہوشیاری بڑی دانائی بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیں پوش بستیاں مکمل آئی سولیشن کورونا کے خطرے سے محفوظ بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں کا کورونا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ورکنگ کلاس مڈل کلاس جو ہر ملک میں اپنی محنت اپنی جفا کشی سے رنگ و نور بکھیرتی ہے وہ آج خوار ہے خوفزدہ ہے بھوکی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن نے زندگی کو قید خانے میں بدل دیا ہے۔ قید خانے کے نام سے انسان بہت گھبراتا ہے لیکن حالات کی سنگینیاں دیکھیے کہ ہر خاندان کو آج ایک قید خانے کی ضرورت ہے۔
بخار، کھانسی کو ہوا میں اڑانے والے بہادر آج تھرما میٹر خرید رہے ہیں، دن میں دس دس بار بخار دیکھ رہے ہیں، ذرا سی کھانسی ہو تو ڈاکٹروں کے پاس بھاگ رہے ہیں۔ یہ انسانوں کی وہ محتاط نظری ہے جسے اپنے بال بچوں کا خیال ہے جسے اپنے ضعیف ماں باپ کا خیال ہے جسے اپنے غیر محفوظ مستقبل کا خیال ہے۔ یہ بیماری احتیاط چاہتی ہے یہ بیماری تنہائی چاہتی ہے۔ تنہائی شاعروں، ادیبوں کی ضرورت ہے کورونا نے 22 کروڑ عوام کو شاعر، ادیب بنا دیا ہے۔