بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسکیوٹر نے کہا ہے کہ عالمی عدالت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کے الزامات کی مکمل تحقیقات کا جلد آغاز کرے گی۔
ان تحقیقات میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں پر عائد الزامات کی چھان بین شامل ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے عالمی عدالت انصاف کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اس اعلان کو حق و انصاف کے لیے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔
عالمی عدالت کی پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ مغربی کنارے بشمول مقبوضہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی درخواست پر وہ براہ راست تحقیقات کرسکتی ہیں، اس کے لیے عدلیہ کی منظوری ضروری نہیں۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ادھر امریکا نے اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطین کو خود مختار ریاست نہیں سمجھتے اور نہ ہی فلسطین بطور ایک ریاست عالمی اداروں کا رکن بننے کا اہل ہے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا عالمی فوجداری عدالت کے اس اقدام کی شدید مخالفت کرتا ہے بلکہ ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔
جس میں اسرائیل کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم فلسطین کو خودمختار ریاست نہیں سمجھتے اور نہ ہی فلسطین بطور ایک ریاست عالمی اداروں کا رکن بننے کا اہل ہے، علاوہ ازیں برازیل کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی خوشنودی کے حصول کے لیے تجارتی مرکز قائم کرنے کے اعلان پر قاہرہ میں عرب لیگ کے مستقل مندوبین کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
عالمی عدالت کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات کے اعلان نے اسرائیل سے زیادہ امریکا کو مشتعل کر دیا ہے۔ یہ اسرائیلی ظلم سالوں نہیں بلکہ عشروں سے جاری ہے۔ فلسطینی عوام کے علاقے اسرائیلی جہازوں کی وحشیانہ بمباری سے تاراج ہوتے آرہے ہیں جنگی خبریں عالمی میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی ہیں لیکن عالمی ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اب عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا بھی چراغ پا ہوگیا ہے حالانکہ عالمی عدالت نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کے خلاف بھی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلچسپ بات کی ہے کہ وہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست ہی نہیں مانتے نہ ہی فلسطین بطور ایک ریاست عالمی اداروں کا رکن بننے کا اہل ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مشرق وسطیٰ کے تیل کی بھاری دولت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے اسرائیل کو علاقے کی منی سپر پاور بنا کر عربوں کے کندھوں پر مسلط کیا ہے۔ مغربی طاقتوں کی اس کھلی جارحیت کی وجہ سے اسرائیل علاقے کا دادا بنا ہوا ہے، یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اسرائیل جب چاہے فلسطینی علاقوں میں اپنی جارح افواج بھیج سکتا ہے اور اسرائیل کے جنگی ہوائی جہاز جب چاہیں جہاں چاہیں ان علاقوں پر وحشیانہ بمباری کرکے بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
اب ان مظالم کے خلاف عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی مظالم کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے تو اسرائیل اور اسرائیل سے زیادہ امریکا چراغ پا ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عالمی برادری ان مظالم بلکہ وحشیانہ مظالم کی طرف سے یوں ہی آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی تو کمزور ملکوں کا کیا ہوگا۔ وہ اپنی شکایت کس کے پاس لے کر جائیں گے؟ فلسطینی عوام آج اپنے ملک سے بے ملک اپنے گھروں سے بے گھر ساری دنیا میں رلتے پھر رہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اسے مسلمانوں کی حمایت نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سات دہائیوں سے کشمیر اور فلسطین اقوام متحدہ کے جوتوں تلے دبے کراہ رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بھارت کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے تو اسرائیل فلسطینی عوام پر ناقابل بیان مظالم ڈھا رہا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم امہ اور او آئی سی ان دونوں مظلوم ملکوں کے مظلوم عوام کی طرف سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ یہ بات ہم محض مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ ان دونوں ملکوں کے مظلوم عوام کی حمایت میں کہہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں امن کے قیام کے ساتھ ساتھ دنیا کے مظلوم ملکوں اور مظلوم ملکوں کے مظلوم عوام کو انصاف دلانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا لیکن اسے دنیا کی بدقسمتی کہیں یا دنیا کے عوام کی بے بسی کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکا کی رکھیل بن کر رہ گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سالوں سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے فلسطین اور کشمیر کے مسئلے حل کرنے میں اقوام متحدہ کیوں ناکام رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنی آزاد حیثیت کھوکر بڑی عالمی طاقتوں کا غلام بن کر رہ گیا ہے اور ایک غلام ادارہ مظلوموں کی مدد کس طرح کرسکتا ہے؟