کورونا ایک انتہائی خطرناک وبا ہے، پچھلے دنوں حکومتی اہلکاروں نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ یہ مرض اب قابو میں ہے اور اس میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔
ان اعلانات سے عوام میں ایک اطمینان کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ مرض کی شدت اسی طرح برقرار ہے اور مریضوں کا عالم یہ ہے کہ اسپتالوں میں جگہ نہیں رہی ہے، اس نئے اعلان سے عوام میں خوف کی ایک اور لہر دوڑ گئی ہے۔ وفاقی وزیر صحت نے بتایا ہے کہ ویکسین کے خلاف پروپیگنڈے سے عوام اب ویکسین لگانے سے احتراض کر رہے ہیں، یہ صورت حل انتہائی پریشان کن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ویکسین کے حوالے سے غلط پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا گیا ہے جس سے عوام خوفزدہ ہوگئے ہیں، سرکاری حلوں سے اس غلط پروپیگنڈے کی تردید بار بار کی جا رہی ہے لیکن عوام پر اس کا کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔
ہمارے ملک میں لاعلمی کی وجہ سے لوگ حقائق کو سمجھ نہیں پاتے جس کا نتیجہ خوفناک شکل میں ہمارے سامنے ہے، اس حوالے سے ملک کے معروف ڈاکٹرز اور وائرالوجسٹ کی مدد لینی چاہیے تاکہ غلط پروپیگنڈے کا جواب دیا جاسکے ورنہ مرض بڑھتا ہی چلا جائے گا اور عوام خطرے سے دوچار رہیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ غلط پروپیگنڈے کی وجہ عوام ویکسین لگانے سے گریزاں ہیں جس کا نتیجہ وبا میں اضافے کے ساتھ جانی نقصانات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے علماء اس حوالے سے ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں اور مسجدوں سے اس غلط پروپیگنڈے کی نفی کی جاسکتی ہے۔
کورونا دنیا بھر میں ایک خطرناک وبا کی شکل میں پھیلی ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ مغربی ملکوں میں بڑی احتیاط کی جاتی ہے لیکن اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وبا سے مغربی ملکوں میں زیادہ نقصان دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا میں اب تک دس لاکھ سے زیادہ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور اس سے زیادہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی، اس حوالے سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس وبا کے خلاف جو منفی پروپیگنڈا ہو رہا ہے، اسے سختی سے روکا جائے اور عوام کو بڑے پیمانے پر اس وبا کے خوف سے نکال کر حقائق سے آگاہ کیا جائے۔
ہمارے عوام اس وبا کی سنگینی کو محسوس نہیں کر پا رہے جس کی وجہ سے وہ ایس او پیز پر عملدرآمد سے غافل ہیں۔ متعلقہ شعبے کے ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایس او پیز پر عملدرآمد اس مرض کو قابو کرنے کے لیے ضروری ہے لیکن ان ماہرین کی ایڈوائز کو عوام ہوا میں اڑا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وبا میں علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور احتیاط اتنی مشکل نہیں آسان ہے۔ ماسک لگانا ایک آسان کام ہے اس پر عملدرآمد سے ماہرین کے مطابق انسان محفوظ ہو جاتا ہے، اسی طرح دو آدمیوں کے درمیان فاصلہ رکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن ان آسان شرائط کو پورا کرنے سے لاپرواہی برتنا ایک ایسی سنگین غلطی ہے جس کا نتیجہ بھیانک نکل سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے بار بار ایس او پیز پر عملدرآمد کی یاد دہانی کرائی جا رہی ہے لیکن ہمارے بہادر عوام اس حوالے سے کوئی پابندی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور جانی نقصان ہو رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایس او پیز کی پابندی نہ کرنا کوئی بہادری ہے؟ انسانی جان بڑی قیمتی ہوتی ہے۔ اس کو معمولی ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرکے خطرے میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کراچی جیسے بڑے اورکاروباری شہر میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ایک المیے سے کم نہیں، حکومت اس حوالے سے آگہی مہم چلا رہی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے جو بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے وہ میڈیا کے ذریعے ہماری عوام تک بھی پہنچ رہا ہے۔
کیا اس نقصان سے ہماری عوام کو کوئی پرواہ نہیں؟ بہت سارے خاندانوں میں صرف ایک کمانے والا ہوتا ہے اور باقی سارے کھانے والے ہوتے ہیں، کمانے والے کو باہر نکلنا پڑتا ہے جو ایک رسکی کام ہے، اگر خدانخواستہ کمانے والا وبا کی زد میں آجاتا ہے تو پھر سارے خاندن کا کیا ہوگا؟ کوئی اس حوالے سے سوچنے کی زحمت کرتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ کورونا کے مریضوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اس وبا سے انتقال کر جانے والوں کی ویڈیو بنا کر ٹی وی پر چلائی جائے تو شاید بے حس عوام کو کچھ احساس ہو۔ جہاں تک ایس او پیز کا تعلق ہے ان پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی اقدامات کیے جائیں جن میں گرفتاریاں بھی شامل ہوں۔
شاید اس سختی کے کچھ بہتر نتائج نکل سکیں، یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ایلیٹ نہ صرف ایس او پیز پر پوری طرح عمل کرتی ہے بلکہ ان کے گھر اس قدر صاف ستھرے ہوتے ہیں کہ وبا کے حملوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، لے دے کر عام غریب جنتا ہی ہوتی ہے جن کے گھروں میں صفائی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور وہ ایس او پیز کو جانتے بھی نہیں یہ صورت حال بڑی تشویش ناک ہے اور ایس او پیز پر عملدرآمد کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔