اسٹیج تیار ہو گیا ہے، عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کے لیے زہریلی تقاریر، پریس کانفرنسوں، اخباری بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور اقتدار کی بھوکی اشرافیہ نے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ 10 سال میں جو سرمایہ اکٹھا کیا گیا تھا، اس کے استعمال کا وقت آ گیا ہے۔
ہر گروہ کو ان کی ذمے داریاں سمجھا دی گئی ہیں۔ جیسے ہی بگل بجے گا ڈرامہ شروع ہو جائے گا۔ مہنگائی کو منصوبے کے تحت آسمان پر پہنچا کر عوام میں اشتعال پیدا کر دیا گیا ہے، اس آگ پر سندھ حکومت نے بارہ لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ کر کے عوام کو مشتعل کرنے کی پوری کوشش کی۔ وہ تو میڈیا کو داد دیجیے کہ اس نے بارہ لاکھ ٹن گندم کے ذخیروں کی لگاتار خبریں چھاپ کر اس سازش کو ناکام بنا دیا جو حکومت کے خلاف بڑے منظم انداز میں کی جا رہی تھی۔ اب جب سازشیں باہرآگئیں تو عوام کے اشتعال کا رخ بدل رہا ہے۔
اب عوام کے ہمدرد بارہ لاکھ ٹن گندم باہر لانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے 78 روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا 50 روپے فروخت ہونے لگے گا اور عوام سکھ کا سانس لینے لگیں گے۔ حالات کی مجبوری نے وہ سازش ناکام بنا دی جو عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے تیارکی گئی تھی۔ حیرت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ایسی عوام دشمن سازش میں اتنا افسوس ناک کردار ادا کرنے کے لیے کیسے تیار ہو گئی۔
عوام کے چولہے ٹھنڈے تھے، کچن میں آٹا نہ تھا، عوام بھوکوں مر رہے تھے اور یہ بات طشت ازبام ہوگئی تھی کہ بارہ لاکھ ٹن گندم سندھ کے گوداموں میں رکھی ہوئی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کی قیادت نا سمجھ داری کا ثبوت نہیں دے رہی کہ وہ ایک ایسی غلطی کر بیٹھی جس کا نہ اس کے پاس کوئی معقول جواب ہے نہ کوئی ٹھوس عذرکہ جب عوام بھوکے مر رہے ہیں تو عوام کی نظروں کے سامنے بارہ لاکھ ٹن گندم چھپا دی گئی۔
پی پی میں بڑے دانا لوگ بھی ہیں کیا انھیں اندازہ نہیں تھا کہ عوام کا اس حوالے سے کتنا شدید ردعمل ہوگا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی کس قدر بدنامی ہو گی۔ غلطی پی پی پی نے کی اور اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا۔ حیرت ہے کہ اس قدر کھلی حقیقت سے پی پی کیسے آنکھ بند کیے بیٹھی رہی۔
کہا جاتا ہے کہ "ایک زرداری سب پر بھاری" لیکن وہ اب اپنی غلط پالیسی کی وجہ پیپلز پارٹی پر بھاری بن گیا، بدنامی اور عوام کی روٹی کے حوالے سے عوام کو بھوکا مارنے کے حوالے سے جو غلطی کی گئی اسے عوام نہ بھول سکیں گے نہ بھلا سکیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی پی پی جیسی کائیاں جماعت نے ایسی غلطی کی جس کا پورا فائدہ (ن) لیگ کو ہوا اور ساری بدنامی پی پی پی کے گلے پڑ گئی۔
ہمارے بلاول بھٹو آنے والے دنوں میں وزارت عظمیٰ کے خواہش مند ہیں۔ اسے ہم سادگی کہیں یا معصومیت کہ پاکستانی سیاست میں پنجاب اہم ترین کردار ادا کر تا ہے اور پی پی پی پنجاب میں زبوں حالی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ میں وزارت عظمیٰ کے لیے چچا بھتیجی میں دوڑ جاری ہے شہباز شریف بلاشبہ ماضی کے ایک "عقلمند" حکمران رہے ہیں بلکہ کامیاب حکمران رہے ہیں لیکن مریم بہت سمجھ دار خاتون ہیں وہ شہباز سے زیادہ بہتر انداز میں سیاسی داؤ پیچ سے کام لے رہی ہیں اور شہباز جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، مریم کے لیے سارا میدان خالی ہے۔
مسلمانوں کا ماضی حصول اقتدار کے حوالے سے قابل مذمت ہے، آج اقتدار کے لیے پاکستان میں جو سازشیں جاری ہیں کیا اسے ماضی یعنی مغلیہ دور کا تسلسل کہا جا سکتا ہے؟ ایک طرف مسلم لیگ ن میں محترمہ مریم ہیں جو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سیاست کے میدان میں کھڑی ہیں، دوسری طرف چاچا ہیں جو کرپشن کے الزام میں جیل میں زمین پر بیٹھ کرکھانا کھانے کا شکوہ کر رہے ہیں۔
ہم اور ہم جیسے بہت سے قلم کار جو اشرافیہ کی لوٹ مار سے سخت نالاں ہیں اس لیے عمران حکومت کی حمایت کر رہے ہیں کہ 72 سال بعد ہی سہی یہ موقعہ ملا ہے کہ ملک کی ایک غیر اشرافیائی جماعت برسر اقتدار آئی ہے اور عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن اشرافیہ ہر قدم پر اس کے لیے کانٹے بچھا رہی ہے۔ اس کے باوجود حکومت ایمانداری سے کرپشن کے الزامات سے بچتے ہوئے مستقبل کے عوامی مفادات کے لیے بہتر پلاننگ میں مصروف ہے۔
اس ملک کے 22 کروڑ عوام دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں کیونکہ پاکستان ابھی تک صنعتی پسماندگی اور صنعتی اشرافیہ کی لوٹ مار میں مصروف ہے اس لیے ابھی خوشحالی عوام سے دور ہے۔
یہ بات زبان زد عام ہے کہ ماضی کے دس سال میں اشرافیہ نے اتنی لوٹ مار کی کہ دولت رکھنے کے لیے اس کے پاس جگہ نہیں رہی ہے۔ یہ دولت عوام کی ہے ہمارے ملک کی ایجنسیاں زمین کی گہرائی سے مجرموں کو ڈھونڈ نکالتی ہیں جب کہ ہمارے سامنے اربوں کے لٹیرے موجود ہیں کیا ان سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے اسے غریب عوام کی ترقی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا؟