Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Aur Koshish (2)

Aik Aur Koshish (2)

پی پی کا سیاسی چلہ ختم ہوا، اب دوبارہ ہوا بھر کر سیاسی اسٹیج پر سرگرم ہوگئی ہیں لیکن باتوں میں وہ دم خم نظر نہیں آتا جو چلہ کشی سے پہلے دکھائی دیتا تھا۔

مشکل یہ ہے کہ اب کہنے کے لیے کوئی گرم گرم باتیں رہی نہیں پرانی گھسی پٹی باتوں سے کام چل رہا ہے وہ بھی لنگڑاتے جھٹکے کھاتے ہوئے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عمران خان نے بڑی تیزی اور ہوشیاری سے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔

اب تک آٹے اور چینی کا ایشو تھا وہ بھی اب ختم ہو گیا، لے دے کر بھاری قرض کا ایک ایشو ہے لیکن حکومت نے اس کا بھانڈہ یہ کہہ کر پھوڑ دیا ہے کہ بی بی اور بابوں نے اپنے دور زریں میں جو 24 ہزار ارب کا قرض لے کر ملک کو گروی رکھ دیا تھا وہی قرض کی باقیات ہیں جو ان کو ورثے میں ملی ہیں۔

ہماری اپوزیشن گھوم پھرکر ایک یہی بات دہراتی ہے کہ حکومت نے اتنے مختصر عرصے میں اس قدر قرض لیا ہے کہ ماضی میں کسی حکومت نے اتنا قرض نہیں لیا تھا بالکل بجا، حکومت بہت قرض لے رہی ہے لیکن قرض کی یہ بھاری رقم ترقیاتی پروگراموں پر خرچ ہو رہی ہے ملک کے اندر اور ملک کے باہر سیف ڈپازٹوں میں نہیں جا رہی ہے اور پورا زور لگانے کے باوجود ہماری اپوزیشن ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکی، یہ شرمندگی ایسی ہے کہ عمران خان سے آنکھیں ملانے نہیں دیتی۔

معیشت تیزی سے استحکام کی طرف جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ترقی کا گراف تیزی سے اوپر جائے گا، دنیا کے معیشت دان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں ایک سپر پاور کی حیثیت سے ابھرے گا۔ حکومت کو عوام میں بد نام اور غیر مقبول کرنے کے لیے آٹے اور چینی کو مہنگا کرنے کی جو سازش ہماری اپوزیشن نے کی تھی وہ پکڑی گئی اور اس سازش کے کرداروں کے خلاف تحقیق کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جلد ہی آٹا اور چینی کو مہنگا کرنے کی سازش کرنے والے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے اور اپوزیشن کا یہ احتجاج ناکام ہوجائے گا۔

سیاسی مخالفین کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ تھا سو انھوں نے چند ماہ خاموشی اختیار کرلی تھی، اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے ذاتی وجوہات کے لیے کچھ عرصہ خاموشی اختیار کی۔ وہ ذاتی وجوہات کیا تھیں ان کا انکشاف انھوں نے نہیں کیا لیکن ماہرین سیاست کا خیال ہے کہ سیاسی مخالفین مایوس ہوگئے تھے اور ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ تھا یہی سبب ان کی خاموشی کا تھا۔ اب لگتا ہے انھوں نے دوبارہ اسٹارٹ ہونے کا اہتمام کرلیا گیا ہے اور سیکنڈ شفٹ چلانے کی تیاری جاری ہے۔

عمران خان نے عوام کو اپنا کاروبار کرنے کے لیے آسان قرضوں کے کئی پروگرام بنائے ہیں اور اس کام کے لیے بھاری رقوم فراہم کی جا رہی ہے۔ بلاشبہ یہ نوجوان طبقے کو نئی زندگی شروع کرنے کا ایک بہترین چانس ہے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں قرض دینے کے حوالے سے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے بھاری قرضے اپنے خاص کارکنوں کو دلوا کر صرف جھولیاں بھرلی گئیں کوئی کاروبار نہیں کیا گیا۔ سارا قرض ہضم کرلیا گیا ہے سازشی عناصر کے ذریعے لاکھوں روپے کے قرض لے کر ہڑپ کرلیے جاسکتے ہیں اور حکومت کو بدنام کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات جمہوری تاریخ میں نظر نہیں آتی کہ جمہوریت خاندانی ہوگئی ہو اور خاندان کا ہر فرد وزیر سفیر بنا ہوا ہو۔ ہماری اپوزیشن جمہوریت کے لباس مجاز میں پرفارم کرتی ہے لیکن خاندانی حکومت اس جمہوریت کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں آپ کو خاندانی جمہوریت نظر نہیں آئے گی اس جمہوریت کو مشرق وسطیٰ کے شیوخ کی "جمہوریت" کہا جاسکتا ہے۔

مریم نواز نے اپنی سیاست کا دوسرا حصہ لانچ کر دیا ہے لیکن ان کے پاس ایسے ایشو نہیں ہیں جو عوام کو متاثر کرسکیں۔ یہی وہ پریشانی ہے جو اپوزیشن کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بلاشبہ اشرافیہ مہنگائی کی سازش میں کامیاب ہوگیا تھا لیکن یہ ٹچی ایشو زیادہ چل نہیں سکا۔

باہر بھاگی ہوئی قیادت بیماریوں کے بہانے باہر گئی تھی ان کے حوالے سے بڑا سنگین پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ ان کی بیماری بہت سنگین ہے دل کا آپریشن ہونے والا ہے دماغ کا آپریشن ہونے والا ہے لیکن ایسا سنگین بیمار گھوم رہا ہے پھر رہا ہے۔ کیا یہ حرکات عوام کو متاثر کرسکتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان سمیت ساری دنیا میں کورونا وائرس وبائی شکل اختیار کرگیا ہے جس کی وجہ سے عوام بہت خوف زدہ ہیں اور حکومت کو یکسوئی سے کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے پچھلے دنوں (ن) کے بعض لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تھا وہ بے ضرورت تھا، اس کا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اربوں کی کرپشن جس حکومت نے آسانی سے ہضم کرلی ہے اس نے ایک سوال بہرحال چھوڑ دیا ہے کہ کیا پاکستان میں قانون اور انصاف اپنی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے۔

مریم نواز کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ عوام کی حمایت کا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ عوام اب دوبارہ دھوکہ کھانا نہیں چاہتے، اپوزیشن نے فضل الرحمن سے مدد لی تھی لیکن مذہبی کارکن کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے وہ مذہب کے حوالے سے تو جان لینے اور دینے پر تیار ہو جاتا ہے لیکن سیاسی رہنماؤں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔