کمال اظفر کا تعلق متحدہ ہندوستان کی اس مسلم اشرافیہ سے ہے جس نے ہندوستان کی تقسیم (بٹوارے) کی حمایت اس لئے کی کہ اس کے لئے بٹوارے کی عدم صورت میں ہندوستانی صوبوں میں اپنے اقلیتی وجود کو "آب و تاب" کے ساتھ برقرار رکھنا مشکل دیکھائی دے رہا تھا۔
سینکڑوں برس متحدہ ہندوستان پر مختلف شناختوں سے حکومت کرنے والے مسلمان حملہ آور خاندانوں میں سے سب سے طویل عرصہ اقتدار مغلوں کا ہے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ بابر وغیرہ مغل تھے یا تیموری النسل اور یہ ہمارا موضوع بھی نہیں) بابر سے شروع ہوا مغل اقتدار بہادر شاہ ظفر پر تمام ہوا۔
مغل اقتدار کی کامل بحالی کے لئے ہندوستان کی تین بڑی مذہبی شناخت رکھنے والی برادریوں ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں نے 1857ء میں بغاوت کی لیکن یہ بغاوت کامیاب نہ ہوپائی۔ برصغیر کی مسلم اشرافیہ کے آفتاب سرسید احمد خان نے "رسالہ اسباب بغاوت ہند" لکھا۔
بٹوارے سے قبل اور بعد میں مسلمانوں نے اسے پڑھنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے سے گریز کیا۔ مسلم اہل دانش نے اس بغاوت کے حوالے سے بہت کم لکھا البتہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان، دانشور اور محقق مرشد جی ایم سید نے سال 1980ء میں ہفت روزہ "جدوجہد" کراچی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس حوالے سے دلچسپ بات کی۔ ان کا کہنا تھا "بہادر شاہ ظفر کے اقتدار کُلی کے لئے بغاوت کرنے والے بنیادی طور پر اس تجزیہ کی اہلیت سے محروم تھے کہ مغل راج اپنی طبعی عمر اورنگزیب عالمگیر کے دور میں پوری کرچکا تھا اس سے آگے تو اسے محض گھسیٹا گیا"۔
سرسید احمد خان جس مسلم نشاۃ ثانیہ کے داعی تھے یہ اقتدار طلبی اور مایوسی کے پاتال میں گرے مسلمانوں کو اس وقت کی جدید دنیا سے ہم آہنگ بنانے کےلئے تھی وہ سمجھتے تھے کہ مایوسی نے اگر سرطان کی صورت اختیار کی تو رہی سہی عزت بھی جاتی رہے گی ان کی کوششوں اور جدوجہد و عمل کی وجہ سے مسلمان بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنے نئے دور کے لئے ضروری تعلیم کے حصول کی راہ پر لگے۔
یہ اور بات ہے کہ کٹھ ملایت اس جدید تعلیم کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے دھول اڑانے لگی۔
ادھر 1906ء میں ڈھاکہ میں متحدہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ کے نمائندے جمع ہوئے (یاد رہے کہ ان میں اکثر نمائندوں کا تعلق ان صوبوں اور ریاستوں سے تھا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے)۔ مسلم اشرافیہ کے اس اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اسماعیلی مسلمانوں کے پیشوا (امام) سر آغا خان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ان کی قیادت میں ہی بعد ازاں مسلمان اشرافیہ کے وفد نے لارڈ منٹو سے ملاقات کرکے ہندوستان کی مسلمان اقلیت کے حقوق کی نگہبانی کی درخواست کی۔
غدر یا بغاوت کے لگ بھگ 90 سال بعد برصغیر کا بٹوارہ ہوا خون میں ڈوبے اس بٹوارے کے کھیتوں میں پچھلے 77 برسوں سے نفرت ہی کاشت ہورہی ہے صرف ہماری طرف ہی نہیں واہگہ کے اُس اور بھی۔
البتہ ایک فرق ہے وہ یہ کہ ہندوستان کا آئین ریاست کی سیکولر شناخت کا نظریہ رکھتا ہے اور ہمارا آئین 1956ء والا ہو یا 1973ء والا، 1948ء کی قرارداد مقاصد اور انڈیا ایکٹ کا ملغوبہ ہے۔ ہماری رائے میں اگر پاکستان کا دستور بھی سیکولر اساس پر ہوتا تو عین ممکن نہیں بلکہ یقیناً ہمیں یہ دن پڑتے نہ گزرے ماہ و سال کی اذیتیں بھگتنا پڑتیں۔
ہندوستان کے بٹوارے کے نتیجے میں بننے و الے پاکستان میں ہندوستان کے صوبوں کی اقلیتی مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ نقل مکانی کرکے پاکستان آیا اپنی زبان، تاریخ ہزار برس کی خودساختہ حکمرانی کے ورثے اور ثقافت کے خبط عظمت کا شکار اس اشرافیہ کی دلجوئی کا سامان یہاں خوب ہوا اس میں ان کے اپنے مہاجر بھائی لیاقت علی خان پیش پیش تھے۔
مقامی شناختیں مسخ کی گئیں۔ قدیم زبانیں نظرانداز ہوئیں اردو قومی زبان قرار پائی۔ ہمارے ہاں (انڈس ویلی میں) جو لوگ 14 اگست 1947ء تک حملہ آور قاتل اور ولن تھے وہ 15 اگست 1947ء کی صبح مسلمان نجات دہندہ ہیرو اور درویش قرارپائے۔
اقلیتی صوبوں کی مسلم اشرافیہ کی بلاجانے کہ یہاں سیدی بلھے شاہؒ صدیوں پہلے کہہ گئے تھے "کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا"۔ (جو کھا پی خرچ کیا وہی تمہارا ہے باقی تو احمد شاہ ابدالی لے جائے گا)۔
تمہید طویل ہوگئی، کمال اظفر کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب "صبح آزادی" کی سطر سطر سے شاید ہی اتفاق ہوسکے۔ اتفاق اور اختلاف کے لئے اس میں بہت کچھ ہے البتہ یہ اعتراف ازبس ضروری ہے کہ انہوں (کمال اظفر) نے اپنے محسوسات، مشاہدات اور فہم کو بیان کرنے میں روایتی ڈنڈی نہیں ماری نہ ہی آپ بیتیاں لکھنے والے اکثر لوگوں کی طرح خود کو پارسا و زاہد کے طور پر پیش کیا۔
بعض واقعاتی غلطیاں ہیں وہ تاریخ اور واقعات کے ماہ و سال اور کرداروں کے حوالے سے ہیں انہیں نظر انداز کیا کیا جاسکتا ہے۔ طالب علم کو تاریخ، تقابل ادیان، تصوف کے ساتھ سب سے زیادہ "آپ بیتیاں" پسند ہیں۔ ان میں پدرم سلطان بود والی چیزیں تو ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود پڑھنے سمجھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔
آپ لکھنے والے کی ذات اور خاندان سے ہی نہیں بلکہ ایک پورے عہد سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ عہد جس کے ماہ و سال آپ نے نہیں دیکھے ہوتے لیکن اگر لکھنے والے کے انداز میں بناوٹ کی بجائے سادگی ہو تو آپ مصنف کی انگلی پکڑے اس کے ساتھ ساتھ چلتے دیکھتے ہیں۔
کمال اظفر کی "صبح آزادی" بھی ایک ایسی ہی آپ بیتی ہے۔ ان کے والد محمد اظفر چونکہ متحدہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ کے ساتھ سول بیوروکریسی کا اہم حصہ رہے اس لئے بھی یہ کتاب اس وقت کے حالات لوگوں کی خواہشوں اور مزاجوں کےساتھ چھوت چھات کے آسیب میں پلتی نچلی ذاتوں کے مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
کمال اظفر کے والد متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان کی بیوروکریسی کے اہم رکن رہے لیکن کمال بھی اپنا تعارف خود ہیں۔ سندھ کے صوبائی وزیر رہے۔ دو بار سینیٹر بنے۔ سندھ کے گورنر رہے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مشیر بھی رہے۔ پیپلزپارٹی ان کی پہلی جماعت تھی اور پیپلزپارٹی ہی ان کی تیسری جماعت، دوسری جماعت مولانا کوثر نیازی والی پروگریسو پیپلزپارٹی تھی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خورشید حسن میر اور تاج محمد لنگاہ والی عوامی جمہوری پارٹی اس پہلے ہی بن چکی تھی۔ عوامی جمہوری پارٹی کا پہلا ورکر کنونشن سید زمان جعفری مرحوم کی رہائش گاہ خانیوال روڈ ملتان پر ہوا تھا یہ جماعت زیادہ دن تک اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائی۔
پروگریسو پیپلزپارٹی بھی "بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا" کے مصداق ہی رہی۔
کمال اظفر نے آج کل کے مشہور چڑیا والے بابے نجم سیٹھی اور اس کے ساتھیوں کو جعلی دانشور لکھا ہے۔ فیض احمد فیض کے بارے میں انہوں نے لکھا "فیض احمد فیض نہ تو بازاری مارکسی تھے نہ دہریے۔ وہ ایک انسانیت پسند شخص تھے "۔
بازاری مارکسی کی اصطلاح اصل میں مسلم اشرافیہ کے بڑے خاندانوں کی کمیونسٹوں سے دلی نفرت کا اظہار ہے۔ کیونکہ اس اشرافیہ کا کہنا ہے ہماری دولت اور تمہاری غربت خدا کی عطائیں ہیں سادہ لفظوں میں یہ کہ مسلم اشرافیہ ایک طبقاتی خدا رکھتی ہے۔