دنیا میں دہشت گردی ایک دلچسپ کھیل بن گئی ہے، ویسے تو دنیا کے ہر حصے میں ہی دہشت گردی جاری ہے لیکن اس حوالے سے افغانستان کا جو حال ہے انسانوں کو تیتر بٹیر کی طرح مارا جا رہا ہے، اس جہل میں انسانیت ڈوب گئی ہے، ویسے تو جہل کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن دہشت گردی ایک ایسا جہل ہے جو انسانیت کے چہرے پر کوڑھ بنا ہوا ہے۔
ہم نے کہا تھا کہ اس حوالے سے افغانستان سب سے آگے ہے شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو جب افغانستان کے کسی حصے میں دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات نہ ہوتی ہو۔
30 جون کو افغانستان کے صوبے ہلمند کے بازار میں بم دھماکے اور راکٹ حملے میں 23 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق افغان صوبے ہلمند کے ضلع کے زول بازار میں چار راکٹ فائر کیے گئے، صوبائی گورنر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق دہشت گردوں نے زول بازار میں پہلے چار راکٹ فائر کیے جس کے بعد اسی مقام پر دھماکے سے ایک گاڑی کو اڑا دیا گیا۔ کار بم دھماکوں اور راکٹ حملوں میں بچوں سمیت 23 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ درجنوں افراد زخمی ہوگئے، زخمیوں کو صوبے کے دارالحکومت لشکرگاہ کے اسپتال منتقل کیا گیا۔ ہلمند میں ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی جب کہ افغان طالبان نے بھی اس حوالے سے کوئی ذمے داری قبول نہیں کی۔
دہائیوں سے دہشت گردی ایک لاعلاج بیماری بن گئی ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے جس میں امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہیں۔ ساری دنیا میں جنگیں لڑنے والے کیا اس وبا "دہشت گردی" کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے ملکوں کے مفادات میں ٹکراؤ ہے اور یہ ٹکراؤ دنیا بھر کے ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے نہیں دیتا۔ ہر روز میڈیا میں چار، پانچ کالمی خبریں لگتی ہیں کہ آج فلاں فلاں ملک میں دہشت گردی کے نتیجے میں اتنے انسانوں کو جانوروں کی طرح قتل کر دیا گیا۔ یہ ہے اشرف المخلوقات۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ اس شیطانی کھیل میں صرف افراد نہیں جماعتیں اور ملک بھی شامل ہیں اور دہشت گردوں کو اسلحہ ہی نہیں بھاری مالی سپورٹ بھی کی جاتی ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا مرض بن گئی ہے جیسے کورونا۔ یہ کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بازاروں، مارکیٹوں اور ہر اس جگہ جہاں ہجوم ہوتا ہے دہشت گرد بلاسٹ کردیتے ہیں اور درجنوں انسان جن میں مرد، خواتین، بچے شامل ہوتے ہیں ان دھماکوں میں ٹکڑوں کی شکل میں بٹ جاتے ہیں یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت بھی کم ہے، زندہ انسان ہنستے کھیلتے انسان پلک جھپکتے میں گوشت کے لوتھڑوں میں بدل جاتے ہیں۔
آج تک اس دہشت ناک کھیل میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دنیا کے مختلف ملکوں میں دھماکے نہ ہوتے ہوں۔ دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں میں یہ خوفناک وارداتیں ہو رہی ہیں اور انسان چیونٹیوں، مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں لیکن دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں کو ذرہ برابر تشویش یا پریشانی نہیں ہوتی کہ ان کے اس وحشیانہ کھیل میں جوان، بچے، بوڑھے سب روندے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چلانے والے رہنما ہر روز یہ تماشے دیکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی منصوبہ بند اور موثر پالیسی بنتی ہے نہ اس پر عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
بڑے بڑے نامور حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ایک مذمتی بیان جاری کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوا جاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے افغانستان اس حوالے سے سب سے زیادہ بدقسمت ملک ہے جہاں تقریباً روزانہ ہی دھماکے ہوتے ہیں اور معصوم اور بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں، سرکاری ادارے تو اس کے خلاف اقدامات کرتے رہتے ہیں جو ان کا فرض ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے خلاف عوام حرکت میں نہیں آئیں گے، اس جہل پر قابو پانا بہت مشکل ہے اور ہمارے سیاستدان دن رات اپنے "ذاتی" مسئلوں میں الجھے رہتے ہیں، ان انسان دشمن وارداتوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتے جو ایک قابل افسوس رویہ ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردوں کو خطرناک اسلحہ آسانی سے مل جاتا ہے اور اس کا بدترین استعمال دہشت گردی کی شکل میں ہوتا ہے۔ دہشت گرد منظم بھی ہیں اور تربیت یافتہ بھی یہی وجہ ہے کہ ان پر آسانی سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عشروں سے لڑی جا رہی ہے لیکن نتیجہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا حال ہے۔ جن خطوط پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے اگر اسی طرح جنگ لڑی جائے تو شاید صدیاں بیت جائیں لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔
ایک دہشت گردی مذہبی ہے، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہر مذہب امن اور شانتی کا داعی ہے لیکن دہشت گردی کے ذریعے ہزاروں بے گناہوں کو انتہائی وحشیانہ طریقہ سے قتل کیا جا چکا ہے، سیاسی دہشت گردی سے مذہبی دہشت گردی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک وحشیانہ اور قاتلانہ نظریہ ہوتا ہے جو معصوم انسانوں کو وحشیانہ طریقوں سے جان لینے اور جان دینے کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔ ہر مذہب امن کے علاوہ مذہبی بھائی چارے کی ترغیب فراہم کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھائی چارہ خون خرابے کی ترغیب بھی فراہم کرتا ہے، اس دہشت ناک بلا کو قابو کرنے کے لیے ذاتی جماعتی حد بندیوں کو توڑنا پڑے گا اور صرف انسان بننا پڑے گا۔