بھارت اور پاکستان کے تنازعات کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتے ہیں۔ اب بھارتی حکومت نے پاکستان کے سفارتی عملے کے لگ بھگ نصف اہلکاروں کو ملک سے نکال دیا ہے جس کے جواب آں غزل کے طور پر پاکستان نے 50 بھارتی سفارتی عملے کو پاکستان سے نکال دیا ہے۔
یوں فی الوقت حساب برابر ہو گیا ہے لیکن بھارت چونکہ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان سے ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لہٰذا اپنے 50 سفارتی عملے کی ملک بدری کے جواب میں کوئی نہ کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کرے گا۔ مشکل یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول ہو یا کوئی اور نام نہاد مسئلہ بھارت اپنی برتری یا کم ظرفی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔
سفارت کار خواہ ان کا تعلق کسی ملک سے ہو قابل احترام ہوتے ہیں اور ان کے خصوصی حقوق ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ ہر ملک میں سفارت کار عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ مراعات کے حامل ہوتے ہیں۔
بھارت نے پاکستانی سفارت کاروں کو نکال کر جو حماقت کی ہے ظاہر ہے اس کا جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ چل پڑے گا اور فطری طور پر حالات نازک ہوتے جائیں گے۔ جو نہ ہندوستان کے لیے فائدہ مند ہیں نہ پاکستان کے لیے، نتیجہ تلخیوں میں اضافے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات دونوں ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو ہر صورت میں مل جل کر ہی رہنا ہے اگر دونوں ملکوں کی قیادت صلح پسند ہوتو کوئی تیسرا ملک انھیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چین سے بھی بھارت کے تعلقات معاندانہ ہیں وہاں بھی سرحدی مسئلہ سرفہرست ہے۔ بھارت کے سربراہان حکومت بھی انسان کی اولاد ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں کا تعلق بھی اشرف المخلوقات سے ہی ہے انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات کا خطاب دیا ہے۔ کیا انسان اپنے عمل سے اشرف المخلوقات کے معیار پر پورا اترتا ہے؟
آج کی دنیا تین چار سو سال کی دنیا سے مختلف ہے ماضی میں عام طور پر جنگوں کے لیے کسی معقول وجہ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کوئی بھی سرپھرا سربراہ حکومت اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے جنگیں چھیڑتا تھا اب انسان اگرچہ ماضی کا انسان نہیں رہا لیکن صدیوں کے گزر جانے کے بعد اس کی جہالت نہیں بدلی وہ آج بھی جنگوں کو پسند کرتا ہے اور بلا کسی معقول وجہ کے بھی جنگیں چھیڑتا رہتا ہے۔ ہندوستان نے اپنے ملک سے پاکستانی سفارت کاروں کو نکال دیا ہے۔
یہ ایک بہت سنجیدہ اقدام ہے جواب میں پاکستان نے ہندوستان کے 50 سفارت کاروں کو پاکستان سے نکال دیا بھارت کی نفسیات کچھ یہ بن گئی ہے کہ بلا کسی معقول وجہ کے پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہے اور پاکستانی سفارت کاروں کو نکالنا اسی حماقت کا حصہ نظر آتا ہے۔
بھارت کا یہ شیوا رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلاتا رہتا ہے، کشمیر 70 سال سے زیادہ عرصے سے ایک متنازعہ مسئلہ ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ نے قراردادیں بھی پاس کی ہیں کہ اس دیرینہ مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرا بھارت نے اقوام متحدہ کی کسی قرارداد پر عمل نہیں کیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ساری دنیا کورونا کے جال میں پھنسی ہوئی ہے ہزاروں لوگ روزانہ جان سے جا رہے ہیں اور ماہرین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح کورونا کی کوئی موثر ویکسین تیار کرلیں لیکن ہنوز انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
ایسے دہشت ناک ماحول میں معمولی باتوں پر اپنے ملک سے سفارتکاروں کو نکال دینا ایک محض جذباتی اقدامات ہیں۔ ہمارا خیال ہے جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں کوئی تعمیری کام نہیں ہوا، بس الزامات اور جوابی الزامات کے پہیوں پر سیاست کی گاڑی گھسیٹی جا رہی ہے۔ ایسی سیاست دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں تو بڑھا سکتی ہے کوئی بہتری کا کام نہیں ہو سکتا۔ کیا ان حقائق کا ادراک دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو ہونا چاہیے؟
حیرت ہے ایسے وقت میں جبکہ ساری دنیا ایک شدید عذاب میں گرفتار ہے دونوں ملکوں کے سفارتکاروں کو ایک دوسرے کے ملکوں سے نکال دینے سے دنیا کیا تاثر لے گی۔ بلاشبہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک خلیج بنا ہوا ہے لیکن کیا اس مسئلے کو قیامت تک یوں ہی چھوڑ دینا چاہیے دنیا ملکوں کے تنازعات کے حل کے لیے ایک ادارہ اقوام متحدہ کے نام سے قائم کیا گیا ہے لیکن یہ ادارہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے ناکام رہا ہے اور یہ ناکامیاں آج کل کی نہیں نصف صدی پر محیط ہیں اس حقیقت کے پیش نظر اس ادارے میں بڑی معنوی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اگر معنوی تبدیلیاں بھی اس ادارے کی کارکردگی میں بہتری نہیں لاسکتیں تو پھر ایک نئی اقوام متحدہ کے قیام کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
اگر کوئی نئی اقوام متحدہ قائم ہوتی ہے تو اس کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا بھرپور جائزہ لے کر نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کی جائے یہ کام بظاہر بڑا مشکل نظر آتا ہے لیکن ایک فعال دنیا کے مظلوم ملکوں کو انصاف دلانے والے ادارے کے لیے اگر کچھ مشکلات پیش آتی ہیں تو یہ اس کی کوئی بڑی قیمت نہیں۔ امید ہے کہ دنیا کے متاثرہ ملک اس حوالے سے ایک فعال کردار ادا کرکے ایک تاریخی کام انجام دیں گے۔