بڑی تیاری کے بعد ہماری اپوزیشن نے آخرکار یوم سیاہ منا لیا۔ اس یوم سیاہ سے اپوزیشن کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اب عمران خان اس قدر مقبول ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کے یوم سیاہ عملاً یوم سفید بن رہے ہیں۔ عمران دور میں بلاشبہ مہنگائی عروج پر ہے عوام پریشان ہیں لیکن اپوزیشن کے کسی یوم سیاہ سے دور ہیں۔
یوم سیاہ کو ایسے دنوں میں رکھا گیا، جب پاکستان سمیت ساری دنیا میں وزیر اعظم عمران خان کے امریکا کے دورے کی دھوم ہے۔ دنیا کے ملکوں میں ایک نئی پاکستانی قیادت کے ابھرنے سے خوشگوار حیرت کا تاثر عام ہے۔ عمران خان کے اس کامیاب دورے کا تاثر زائل کرنے کے لیے جس محنت اور جس بھاری سرمائے سے یوم سیاہ کا اہتمام کیا گیا، اس کی کامیابی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دینی مدرسوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لاکر یوم سیاہ کو سفید کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یوم سیاہ اپنے بوجھ تلے دب کر رہ گیا۔
یوم سیاہ حکومتوں کی سیاہ کاریوں کے خلاف احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے بدقسمتی سے عوام یوم سیاہ اور یوم سیاہ کا اہتمام کرنے والوں سے اس قدر واقف ہوگئے ہیں کہ اس مبارک موقع پر گھروں سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام اس قسم کے یوم سیاہ کو پپٹ شو سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ہماری اپوزیشن کی پریشانی یہ ہے کہ ہر گزرتے دن میں حکومت اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور یہی خوف ہماری اپوزیشن کو کھائے جا رہا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اور مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور اشرافیہ اس صورت حال سے سخت پریشان ہے کہ اگر حکومت کو ایک سال بھی مل گیا تو اس کو ہلانا مشکل ہوجائے گا۔
سرمائے کے بل پر بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کرنے والے پریشان ہیں کہ اب سرمائے میں بھی وہ کشش نہیں رہی کہ وہ عوام کو جلسوں جلوسوں میں کھینچ کر لاسکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر روزکرپشن کا ایک نیا اسکینڈل سامنے آرہا ہے اور عوام حیرت سے نئے نئے اسکینڈلوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کرپشن ویسے تو پاکستان میں کوئی نئی دریافت نہیں ہے لیکن کرپشن کا جو طوفان پچھلے دس سالوں میں اٹھا ہے، اس نے 22کروڑ پاکستانیوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
عمران خان نے اپنے دورہ امریکا کے دوران جس بولڈ طریقے سے ہر مسئلے پر اپنا موقف پیش کیا ہے اس کا ایک مثبت تاثر ساری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے خاص طور پر عمران خان نے جس جرأت کے ساتھ ٹرمپ کے سامنے کشمیر کا مسئلہ رکھا اس کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کر دی۔ بھارت سرکارکی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عالمی فورم پرکشمیر ایک متنازعہ مسئلے کی طرح نہ ابھرے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی وجہ سے کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے اور اس امریکی موقف کی تبدیلی سے بھارتی سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے لیے پارلیمنٹ میں آنا مشکل ہوگیا ہے۔
آج دنیا تنازعات سے بیزار ہوگئی ہے اور جنگوں کا موقف دنیا کے عوام کے اعصاب پر سوار ہے۔ دنیا کے عوام ایک پرامن اور خوشحال دنیا کے خواہش مند ہیں اور ہر اس لیڈر ہر اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جو ایک پرامن اور خوشحال دنیا کی بات کرتا ہے۔ عمران خان بھارتی حکمرانوں سے بار بار مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور بھارت مذاکرات سے دور بھاگ رہا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے دنیا یہ تاثر لینے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو پرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور بھارت پاکستان کی مثبت کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو کوئی قیادت اپنے موقف سے قائل کرلیتی ہے کہ فریق مخالف پرامن بات چیت سے بھاگ رہا ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ فریق مخالف متنازعہ مسائل کو مذاکرات کے بجائے جنگ سے حل کرنا چاہتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اپنی کوششوں سے دنیا پر یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان کشمیرکے مسئلے کو پر امن بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور بھارت پر امن بات چیت کی راہ میں روڑہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ ڈپلومیسی کی کامیابی ہے جس پر پاکستان 71 سال سے چل رہا ہے عمران خان نے اس ڈپلومیسی کو کامیاب بناکر پاکستان کا سر بلند کردیا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ امریکا طالبان سے مذاکرات چاہتا تھا اور پاکستان کی کوششوں سے طالبان آج نہ صرف امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے نظر آرہے ہیں بلکہ خود امریکی صدر کے مطابق مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ پاکستان خصوصاً عمران خان کی ایسی کامیابی ہے جس کا اعتراف دنیا کر رہی ہے۔
ان مثبت اور موثر کامیابیوں کی وجہ سے ہماری اپوزیشن سخت پریشان ہے کہ عمران خان نہ صرف داخلی محاذ پر مسلسل ٹھوس کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں بلکہ خارجہ محاذ پر بھی اپنی کامیابیوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے منصب کا اہل ہے بلکہ اس میں بڑی مہارت سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ ہماری اپوزیشن کی بدقسمتی یہ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے وہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس قدر بد نام ہوگئی ہے کہ کوئی اس کی حمایت کے لیے تیار نہیں۔
ایک مہذب اور محب وطن اپوزیشن کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اہم قومی مسائل پر حکومت دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر مثبت اور اہم قومی مسائل پر حکومت کی حمایت کرے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپوزیشن عمران دشمنی میں اس قدر اندھی ہوگئی ہے کہ حکومت کے کسی مثبت کام میں بھی اس کی حمایت کے بجائے دشمنی کی راہ اختیار کر رہی ہے کیونکہ اپوزیشن کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ اگر حکومت کو سال دو سال مل جائیں تو پھر اسے ہٹانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔