ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ بھارتی حکومت اسے کام سے روک رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک فلاحی تنظیم ہے، یہ تنظیم مختلف حوالوں سے مشکلات کا شکار عوام کی مدد کرتی ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کا شکار لاکھوں عوام مدد کے لیے فلاحی تنظیموں کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ جب اپنے شہری دشمن ہو جاتے ہیں تو کسی نہ کسی ادارے کی طرف مدد کے لیے دیکھنا پڑتا ہے۔
کشمیری عوام ایک طویل عرصے سے بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کی ایک طویل داستان ہے۔ کشمیریوں کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض مذہبی تفاوت کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ان مظالم کا اندازہ اس المناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک کشمیر میں 70 ہزار کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں پر مظالم ڈھانے میں براہ راست ملوث ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کمیونٹی کو اپنی مرضی سے جینے کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ کشمیری 71 سال سے اپنے حق خود ارادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دنیا کے طے شدہ اصولوں کے مطابق اگر کوئی قوم ظلم کی وجہ اپنے مخالفین کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو اسے یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے۔
کشمیر میں دو مذہب کا بنیادی فرق ہے اگر بھارتی حکومت چاہتی تو اس فرق کو یا اختلاف کو پیار محبت سے ختم کر سکتی تھی لیکن بھارت کے متعصب ہندوؤں نے اختلافات کو دشمنی میں اس حد تک بدل دیا ہے کہ اب ہندو مسلمانوں کا ساتھ رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ انسان جن حوالوں سے تقسیم ہو کر ایک دوسرے کا دشمن بنا ہوا ہے، اس کا ایک حوالہ مذہب ہے کہ دنیا میں انسانوں کے بہنے والے خون کا ایک بڑا حصہ مذہب ہی کے حوالے سے بہا ہے۔
مذہب بنیادی طور پر انسان کی نفسیاتی تسکین کا ذریعہ بھی ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں مذہب مختلف ہونے کے باوجود تمام انسانوں کی مشترکہ پناہ گاہ ہے۔ اس تناظر میں مذہبی منافرت کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں وہ مذہبی منافرت سے دور ہوتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان مذہبی قربت پیدا کرنے والوں کو ایک بڑا انسان ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہاں اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ اسلام ایک منطقی مذہب ہے اور انسان کو مطمئن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں مذہب کے مختلف حوالے دینے کا مقصد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان صرف اور صرف مذہبی رواداری پیدا کرنا اور مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب ایک بہت بڑی روحانی طاقت ہے اس کے صحیح اور غلط استعمال کا انحصار انسان کی علمیت اور صلاحیت پر ہے۔
دنیا کے عوام اگرچہ مختلف حوالوں سے تقسیم کا شکار ہیں لیکن مذہبی تقسیم زیادہ شدید ہے جس کو اعتدال میں لانے کی ضرورت ہے۔ مذہبی شدت پسندی پسماندہ ملکوں میں زیادہ عام ہے جب کہ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں یہ وبا اتنی شدید نہیں ہے، اس کی وجہ تعلیم کے علاوہ سماجی ترقی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منظم اور منصوبہ بند طریقے سے مذہبی اعتدال پسندی اور مذہبی رواداری کے لیے کام کیا جائے۔ ماضی میں مذہبی انتہا پسندی کی شدت کا عالم یہ رہا کہ لاکھوں انسان اس انتہا پسندی کا شکار ہو گئے۔
1947ء میں تقسیم کے موقع پر جو خون ریزی ہوئی وہ اتنی شرم ناک ہے کہ اس سے انسانیت کا سر ہمیشہ نگوں رہے گا۔ مذہب انسان کی ضرورت ہے خدا انسان کی ضرورت ہے اس ضرورت کو انسان دیوانگی تک لے جاتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں مسجد ہیں، لاکھوں مندر ہیں، لاکھوں گرجا گھر ہیں۔ بدقسمتی سے ان عبادت گاہوں کو نفرتیں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مذہبی قیادت مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتی رہی ہے اور اب بھی کر رہی ہے۔ جو انتہائی مایوس کن ہے۔ جب تک اس ذہنیت کو ختم نہیں کیا جائے گا انسانوں کے درمیان نفرتوں کا لاوا پکتا رہے گا۔ اس حوالے سے مذہبی قیادت سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
یہ مذاکرات مختلف مذاہب کی قیادتوں کے درمیان بھی ہونے چاہئیں اور دانشوروں اور مذہبی قیادت کے درمیان بھی ہونے چاہئیں۔ یہ انسانوں کی ایک بڑی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے کسی کو تو آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ مسئلہ نہ چھوٹا ہے نہ کم سنگین ہے جو لوگ مذہبی رواداری کی اہمیت کو سمجھتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر مذہبی رواداری کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہیں۔
بھارت اور پاکستان کا قیام اگرچہ دو قوموں کے حوالے سے عمل میں آیا لیکن قیام پاکستان کے بعد تقسیم کی اصل وجہ ابھر کر سامنے آئی یعنی مذہب۔ مذہب بذات خود کوئی خطرناک ایلیمنٹ نہیں ہے اسے انسان خود خطرناک بنا دیتا ہے۔ اس کو خطرناک بنانے میں مذہبی قیادت اور مذہبی انتہا پسندی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے عبادت گاہوں کا حوالہ دیا تھا۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت گاہوں میں عبادت کرتے ہیں اور عبادت اگر پرامن ہو تو انسان کی ذہنی اور نفسیاتی تسکین کا باعث بنتی ہے لیکن بعض شرپسندوں نے عبادت گاہوں کو بھی سیاست کی نذر کر دیا۔ ہندو انتہا پسند مسجدوں کے آگے ڈھول تاشے بجا کر فساد کی راہ ہموار کرتے رہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت گاہیں شیطانی حرکتوں کے لیے نہیں بنائی جاتیں، عبادت گاہوں کا مقصد انسانی ذہن کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرنا ہوتا ہے لیکن شرپسند ان مقدس مقامات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر کے نہ صرف ان کے تقدس کو پامال کرتے رہے بلکہ خونریز فسادات کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ مذہب ذہنی پاکیزگی کا نام ہے لیکن مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ شرپسند گروہوں نے مذہب کی حرمت کو پامال کیا، آج کشمیر اور فلسطین دو ملک مذہب کے حوالے سے جس تباہی سے دوچار ہیں اور انسانی زمین کو نفرتوں کی آماج گاہیں بنا دیا گیا ہے، کیا مذاہب اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔