پاکستان جیسے پسماندہ ترین ملک میں جہاں جمہوریت کے نام پر 71 سال سے اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے سب سے پہلے اشرافیہ کی سیاست اور اقتدار سے قبضہ ختم کرنا ضروری ہے۔ ہماری اجتماعی بد نصیبی یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اشرافیہ کی غلامی میں مبتلا ہیں۔ 2018ء میں جو انتخابات ہوئے اس میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی۔
تحریک انصاف کی کامیابی کو مختلف حوالوں سے بد نام کیا جا رہا ہے جب کہ 2013ء کے الیکشن دھاندلی کے حوالے سے بد نام ترین الیکشن تھے۔ اس وقت تحریک انصاف نے بہت احتجاج کیا لیکن چونکہ فریق اول اس میں اشرافیہ تھی لہٰذا تحریک انصاف کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ تحریک انصاف کی ایک نہ سنی گئی اور اشرافیہ بے خوف ہو کر حکومت کرتی رہی۔ بلکہ دو اشرافیائی جماعتیں اپنی انتخابی میعاد یعنی پانچ سال مکمل کرنے پر قابل مبارکباد ٹھہریں۔
جب کہ صورت حال یہ تھی کہ پچھلے دس سال کے دوران لوٹ مار کا ایک ایسا سلسلہ چلتا رہا کہ 24 ہزار ارب کا ملک قرض دار ہو گیا۔ آج اس کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اور اشرافیہ موجودہ حکومت کو اس 24 ہزار ارب قرضوں کا ذمے دار ٹھہرا رہی ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ایک سال میں 24 ہزار ارب روپیہ تحریک انصاف نے کس سے لیا اور کہاں خرچ کیا اور اشرافیہ کی ہمت نہیں کہ تحریک انصاف پر کرپشن کا الزام لگائے اور دوسری طرف عمران حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا دیا گیا ہے اور حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ وہ استعفے دے کر اقتدار سے دست بردار ہو جائے۔ اس کے ساتھ انتخابات کے مطالبے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اشرافیہ جانتی ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو اشرافیہ عوام کے ووٹ سے محروم رہے گی اور تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔ ایک طرف صورتحال یہ ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اربوں کی کرپشن کے الزامات میں جیلیں کاٹ رہی ہے لیکن حکومت سے مطالبہ یہی ہے کہ سلیکٹڈ حکومت استعفیٰ دے۔
وہ ملک جہاں عوامی جمہوریت ہوتی ہے اور سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ قابض نہیں ہوتی ان ملکوں میں آزادی صحافت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان ملکوں میں آزادی صحافت کی ویلیو بھی ہوتی ہے۔ غلام ملکوں میں آزادی صحافت پر قدغنیں عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اشرافیہ جب تک اقتدار پر قابض رہی، آزادی صحافت پر بھی مختلف قسم کے دباؤ موجود رہے ہیں۔ اس حوالے سے جیسے کہ ہم نے نشان دہی کی ہے اشرافیائی ملکوں میں عوام کی آزادی صرف کتابوں میں ہوتی ہے عملاً اس آزادی کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔
اصل میں پسماندہ ملکوں میں اشرافیہ کی برتری اور اشرافیہ کے قبضے کے خلاف جدوجہد کرنا ہی آزادی صحافت کی علامت ہوتی ہے۔ ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آزادی صحافت کی درست تعریف نہیں کر سکے۔ خبروں کے بے سروپا مقابلے کو آزادی صحافت کہہ کر خوش ہونا ایک ایسی غلطی ہے جس کا آزادی صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ آزادی صحافت کے لیے صحافت کا اشرافیہ کے قبضے سے آزاد ہونا شرط اول ہے۔
اشرافیائی ملکوں میں کرپشن کھلی ڈلی ہوتی ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں دولت ہر شعبے کا محور ہوتی ہے اور سارا نظام دولت کے گرد گھومتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اشرافیائی ملکوں میں کیریکٹر والے صحافی کام نہیں کرتے بلکہ ایسے ملکوں میں کیریکٹر والے صحافی زیادہ مستعدی سے کام کرتے ہیں اور ایسے ہی ملکوں میں آزادی صحافت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں سرمایہ دارانہ نظام جاری ہے اور آزادی اظہار اور آزادی صحافت نسبتاً بہتر ہے وہاں بھی سرمایہ دارانہ طرز معاشرت و معیشت مستحکم ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں انسانی اور رائے کی آزادی بہت محدود ہے۔ رائے کی آزادی دراصل عوام کی معاشی آزادی سے مشروط ہے اور جہاں تک غریب عوام کی معاشی آزادی ہے پسماندہ ملکوں میں اس کا تصور بھی موجود نہیں، البتہ ان ملکوں کی اشرافیہ صحافتی آزادی کا پروپیگنڈا توکرتی ہے لیکن حقیقت میں پسماندہ ملکوں میں بھی رائے کی آزادی موجود نہیں۔ یہ سارا کھیل مدتوں سے چل رہا ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں۔