بیسویں صدی، ایک منفرد صدی تھی، اس صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں، ہٹلر کا عروج و زوال، غیرجانبدار تحریک کا عروج و زوال اس کے علاوہ یہ صدی اپنے اندر بے پناہ مشہور عالمی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ انسان نے چاند پر پہلا قدم اسی صدی میں رکھا، ان اہم واقعات کا تاریخی کردار بھی ہے۔
صدیوں سے چاند شاعروں کا خوبصورت محبوب تھا، شاعر اپنی محبوبہ کو چاند سے تشبیہ دیتے، چاند میں اپنے محبوب کا چہرہ دیکھتے تھے۔ شاعروں کی شاعری کا چاند دلچسپ موضوع تھا۔ وقت کے ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں جب انسان نے چاند پر قدم رکھا تو شاعروں کے حسین تصورات کا ستیاناس ہو گیا، چاند ایک ویران سیارہ نکلا اور وہ بھی سناٹوں سے بھرا۔ چاند پر انسان کے پہنچنے سے شاعری اور شاعروں کا تو بیڑا غرق ہو گیا۔
اسی صدی میں وہ دو عالمی جنگیں لڑی گئیں جن میں لاکھوں انسان مارے گئے۔ عالمی جنگوں میں جو سب سے بڑا سانحہ ہوا، جن میں ایٹم بم استعمال کیے گئے۔ ایٹم کا اس وقت تک صرف نام سنا جاتا تھا دوسری عالمی جنگ نے بتایا کہ ایٹم بم کیا ہوتا ہے، اس کی تباہ کاری کس قدر بھیانک ہوتی ہے اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ دو ایٹم بموں سے جو تباہ کاری ہوئی اگر انسان، انسان ہوتا تو کان پکڑ لیتا اور زندگی میں ایسے ہتھیار بنانے سے توبہ کر لیتا لیکن اس انسان نے ایٹم بم اور ایٹمی ہتھیار بنانے کا مقابلہ شروع کر دیا۔
آج جس طرف آنکھ اٹھاؤ تیری تصویراں ہے والی خوفناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور آج کا انسان جاپان میں استعمال ہونے والے ایٹم بموں کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد آنے والی نسلوں کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ زندگی میں کبھی ایٹم بم یا ایٹمی ہتھیاروں کا نام نہ لینا۔ لیکن پھر بھی انسان کو دو ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کا کچھ اثر نہیں ہوا اور آج اس انسان نما شیطان نے ساری دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں پر بٹھا دیا ہے۔ جانے کب کوئی شیطان بٹن دبا دے اور دنیا تباہی و بربادی کی تصویر بن جائے۔ کیا ہم دنیا کے انسانوں کو بے حس کہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے مالکان کو جوتوں کے بجائے گلاب پیش کر رہے ہیں۔
میں بار بار یہ حوالہ دیتا ہوں کہ کیا انسان، انسان رہا ہے یا بدترین حیوان بن گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اس انسان کو جس کے کارنامے دیکھ کر اصلی انسان شرم سے زمین میں گڑھ جاتا ہے، آسمان پر چڑھا لیا گیا ہے۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خوشنما نظارے دیکھنے کے بعد ان شیطانوں سے انسانوں کو اپنا رشتہ توڑ لینا چاہیے تھا اور جو شخص آگ کے ان دیوتاؤں سے بات کرتا یا تعلق رکھتا اس سے انسانوں کو پناہ مانگنا چاہیے تھا لیکن یہ کیسی انسانی ذلت ہے کہ یہ درندے آج دنیا کے سربراہ بنے بیٹھے ہیں۔ امریکی صدر ٹرومین کی اجازت سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جس کی وجہ ایٹمی شعلوں میں انسان جل کر خاک تو ہو گیا لیکن بچے رہنے والوں میں سے ہزاروں اپنی شکلیں کھو دیے اور اس قدر ڈراؤنے ہوگئے کہ اگر کوئی غفلت میں انھیں دیکھے تو بے ہوش ہو جائے۔
دنیا میں بہت سارے ایٹمی سائنسدان ہیں جو ایٹم کی تباہ کاریوں کو جانتے ہیں لیکن یہ ایٹمی ہتھیاروں کو اور زیادہ تباہ کن بنانے کا نیک کام کر رہے ہیں، یہ دوسروں سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں کہ ایٹم بم کیا ہے، ایٹمی میزائل کیا ہے اور انسانوں کے لیے کتنا تباہ کن ہے۔ یہ سب اس کی بھیانتا کو جانتے ہوئے بھی دنیا کے تمام ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کر دیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی سخت حفاظت کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان ہتھیاروں کو کس طرح زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے۔ ان سائنس دانوں کو کالے پانی کی سزا دینا چاہیے اور ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ یہ شیطان دوبارہ مہذب انسانوں میں شامل نہ ہوں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ایٹمی سائنس ہماری کلاسوں میں پڑھائی جاتی ہے یا نہیں اگر پڑھائی جاتی ہے تو سب سے پہلے ہیروشیما اور ناگا ساکی کے ایٹمی دھماکوں میں مرنے والوں کی بگڑی ہوئی خوفناک شکلوں کے حوالے سے طلبا کو بتایا جائے کہ یہ دو ایٹم بم کس کے حکم سے استعمال کیے گئے، ان سے کتنا نقصان ہوا اور کتنے لوگوں کا ناک نقشہ اس قدر خوفناک ہوا کہ سادہ لوح اور کمزور دل والا انسان انھیں دیکھتے ہی بے ہوش ہوجائے۔ انھیں انسانیت سے خارج کیا جائے۔ یہ معمولی بلکہ بہت معمولی سزا ہے، ان ظالموں کی جنھوں نے ایٹم بم سے بے قصور اور سادہ لوح انسانوں کو جلایا۔
معلوم نہیں دنیا کو وجود میں آئے ہوئے کتنے کروڑ سال گزرے، اتنی پرانی دنیا کی تاریخ کا ملنا مشکل ہوگا لیکن اگر کہیں سے کوئی پرانی تاریخ کے اوراق ملتے ہیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس تاریخ میں ایٹمی وحشیوں کا کوئی ذکر نہیں ملے گا۔ آج جو تاریخ پڑھائی جا رہی ہے اس میں "ایٹم" کا ایک مکمل خلاصہ اور بیسویں صدی میں ناگاساکی اور ہیروشیما کی ایٹمی تباہ کاریوں کی تفصیل ان تصاویر کے ساتھ دی جائے جنھیں ایٹمی آگ نے جلا کر ان کے چہرے بھیانک بنا دیے ایسے بھیانک کہ انھیں دیکھ کر انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ کا آج کے انسان کو علم نہیں لیکن قیاس کہتا ہے کہ دنیا کے کسی دور میں وہ ایٹمی وحشی پیدا نہیں ہوئے ہوں گے جو جدید تاریخ کے ڈریکولا ہیں۔
ایٹمی ذخائر اتنے بڑے ہیں کہ ان ذخائر کا 1/100 حصہ بھی استعمال ہو تو دنیا کا وجود باقی نہ رہے اور دنیا سے انسان کا نام و نشان مٹ جائے۔ ایسے خطرناک بلکہ دہشت ناک ہتھیار ہماری دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں جب کہ ہماری پوری دنیا کو تباہ کرنے کے لیے اس اسٹاک کا 1/100 حصہ ہی کافی ہے۔ آج کے مفکر، آج کے دانشور، آج کے ادیب، آج کے شاعر، آج کے فنکار، آج کے قلمکار ان سب کا فرض ہے کہ وہ 1945ء میں آزمائے ہوئے ایٹم بموں کی تباہ کاریوں اور آج موجودہ ایٹم اور ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر اور ان کی تباہ کاریوں سے آج کی دنیا میں بسنے والے انسان کو آگاہ کریں۔