ایک دوسرے پر الزام تراشی ہماری سیاست میں ایک عام روٹین کی بات ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ الزام تراشیاں ہماری سیاست کی پہچان ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ الزام تراشیوں جیسے بے ہودہ کاموں میں اپنا وقت برباد کریں لیکن ہمارے سیاست کاروں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ الزام تراشیوں کے بجائے ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، دوسرا یہ کہ آج کل سیاست دانوں کا ایک بڑا حصہ فارغ ہے اور فارغ وقت میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بہترین مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ شہباز شریف نے کہاہے کہ "جناب وزیر اعظم معیشت آپ کی پالیسیوں کی وجہ تباہ ہو ئی" ان کی اس بات میں وزن ضرور ہے موصوف صرف اتنا غلط کہہ گئے کہ آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوگئی۔ یہ کہنے کے بجائے یہ کہتے کہ "ہماری پالیسیوں کی وجہ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا" اگر اتنی سی سچ بات کہہ دیتے تو سارا کنفیوژن ختم ہو جاتا، لیکن سچ بولنے سے اہل سیاست کو جو بیر ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ سیاستدان عموماً سچ کو حرام کہتے ہیں اور جھوٹ سے کام چلاتے ہیں۔ جب سے شریف برادران کے ہاتھوں سے اقتدار نکل گیا ہے۔
وہ دوسروں پر الزام عائد کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی معیشت کو پہلے ہی سے گھن لگ گیا تھا کیونکہ جو تاجدار آج ہیں انھی کے بزرگ ماضی میں حکمران رہے ہیں اور آج جو ہو رہا ہے وہ ماضی کا کیا دھرا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شیراں دے پتر شیر کو آج کیسے خیال آگیا کہ ہماری معیشت پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ کاش ہمارے چھوٹے میاں یہ کہتے کہ معیشت کی خرابی کی وجہ وہ 24 ہزار ارب روپیہ ہے جو سابق کے دور میں لیا گیا۔ اس قرض کی آواز بازگشت آج ہمارے جملوں میں سنائی دے رہی ہے۔
نئی حکومت نے قرض ضرور لیا ہے لیکن اس قرض کی ایک ایک پائی ملک و ملت پر خرچ کی گئی، اس میں کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی گئی، اگر ایک پائی کی کرپشن کی جاتی تو ہماری مہربان اپوزیشن طوفان اٹھا دیتی۔ کرپشن ایک آرٹ ہے، ایک مہارت ہے جو خاندانی اور موروثی ہوتی ہے اور خاندانی اور موروثی لوگ ہی اس آرٹ سے واقف ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کا ایک آرٹ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان پر بڑے بڑے سیریس الزامات لگتے رہے، وارنٹ نکلتے رہے۔ پولیس آگئی لیکن کیا اسے آرٹ نہیں کہیں گے کہ یہ لیڈران ہر بار ہر وار سے مکھن سے بال کی طرح نکلتے رہے۔
اس وقت ملک کورونا کی بھرپور وبا کی زد میں ہے، بات صرف ہمارے ملک کی نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کی ہے۔ ہر شخص ڈرا ہوا ہے، لوگ نسلوں سے چلنے والی دشمنیاں بھول گئے ہیں اور کورونا کے مشکل خطرے سے خائف ہیں لیکن ہماری اپوزیشن کی پوری فوج نقلی حکومت کے خلاف شدید پروپیگنڈے میں جٹی ہوئی ہے۔
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہے کہ حکومت کی کارکردگی نیک نامی کے خلاف ابھی سے محاذ بنایا جائے ورنہ حکومت اس مضبوطی سے پیر جما لے گی کہ اس کو ہٹانا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وہ ڈر ہے جو چھوٹے میاں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔
ہمارے عوام آج جس غربت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں، وہ وہی 24 ہزار ارب ڈالر کا وہ قرض ہے جس کا حساب، حساب دوستاں اردل کہلاتا ہے اگر کسی ملک میں قانون اور انصاف فعال اور غیر جانبدار ہو تو اشرافیہ کو دیوار کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بہت ساری خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن انھوں نے قانون اور انصاف کی حرمت کو برقرار رکھا ہوا ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ عام آدمی قانون اور انصاف پر یقین رکھتا ہے اور عوام بڑی حد تک گھر کے اندر اور گھر کے باہر مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ بات چل رہی تھی اپوزیشن کی اور بیچ میں نکل آئی قانون اور انصاف کی اس اتفاق کو کیا کہیں؟
انصاف کے بغیر ملک ایک قبرستان اور قانون کے بغیر معاشرہ بھیڑوں کی ایک بھیڑ ہے، آج بلاشبہ معاشروں میں انصاف بھی ہے اور قانون بھی لیکن ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ عوام انصاف اور قانون سے نابلد ہیں، نتیجہ یہ کہ استاد لوگ ان پڑھ لوگوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، مظلوم اور انصاف کے درمیان ایک فریق وکیل ہے۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں وکیل کی حیثیت کا تعین بہت مشکل ہے، اول تو ہمارے وکلا کی فیس اتنی ہوتی ہے کہ عام آدمی صرف وکیل کو دیکھ تو سکتا ہے اس کی خدمات سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اسے غریب آدمی کے ساتھ کھلی ناانصافی ہی کہہ سکتے ہیں۔
بہرحال بات چلی تھی اپوزیشن لیڈرکے اس ارشاد سے کہ "وزیر اعظم معیشت آپ کی پالیسیوں سے تباہ ہوگئی۔" یہ ایک بہت ہی دلچسپ معاملہ ہے، حکومت کو آئے مشکل سے دو سال ہو رہے ہیں، اس دوران نہ کوئی قحط آیا نہ کوئی معاشی تباہی۔ ہمیشہ کی طرح اونچ نیچ کے ساتھ معیشت کی گاڑی چلتی رہی، عوام غریب تھے، غریب ہیں اور غریب رہیں گے جب تک کرپٹ لیڈر اقتدار میں آتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اقتدار میں آنے سے کیسے روکا جائے، اس کا آسان طریقہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کو پہچانیں اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔