سیاست میں بائیں بازوکا کردار ماضی میں بہت نمایاں رہا ہے بلکہ قیام پاکستان کے بعد دائیں بازو کی مسلم لیگ کے ساتھ سیاست میں بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی واحد سیاسی جماعت تھی جو عوام میں موجود اور سرگرم تھی۔
اس زمانے میں ایک خاص بات یہ تھی کہ نیپ کے ساتھ مزدوروں، کسانوں، ڈاکٹروں، وکیلوں وغیرہ کی تنظیمیں جڑی ہوئی تھیں جس کی وجہ اس کی طاقت میں اضافہ ہو گیا تھا اور پورے پاکستان میں وہ متعارف تھی۔ اس کے جلسے جلوس بھی کامیاب رہتے تھے اس عوامی سیاست کے بعد نہ جانے اس کی نظریاتی اشرافیہ کو کیا ہوا کہ وہ صرف اسٹڈی سرکل سے چمٹ کر رہ گئی۔ فلسفہ یہ تھا کہ لیڈر کو نظریاتی طور پر مستحکم کیے بغیرکوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی، اسی طرح دوسرا فلسفہ یہ تھا کہ لیڈر تحریکوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے اور اس کی تربیت بھی عملی سیاست میں حصہ لینے سے ہوتی ہے۔
ان فلسفوں کے درمیان عملی سیاست لٹک کر رہ گئی اور بایاں بازو عملی طور پر سیاست سے غائب رہا۔ یہ درست ہے کہ سیاست کے لیے لیڈرکی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ لیڈرکے انتظار میں عوامی سیاست کا بوریا بستر ہی لپیٹ دیا جائے۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا کہ لیڈرکے انتظار میں بائیں بازوکی سیاست کا بیڑا ہی غرق ہوکر رہ گیا۔ یہ بائیں بازو کی سیاست کی ایک بڑی ناکامی تھی۔ جس کا احساس تک نہیں کیا گیا اس کی ایک وجہ نظریاتی قیادت کا فقدان تھا اور ہے۔
بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں بایاں بازو نمایاں رہا ہے بلکہ سیاست میں فعال بھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بائیں بازو کی سیاست اہل دانش سے محروم ہوگئی ہے۔ جو ہر دور میں اپنے دور کے حالات کے مطابق نظریاتی رہنمائی کرتے رہتے تھے۔ ہمارے ملک میں دائیں بازوکی دو سیاسی پارٹیاں فعال رہی ہیں اور اب بھی ہیں اس کی وجہ دولت کی فراوانی ہے جو پچھلے دس سالوں میں عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹ کر جمع کی گئی ہے۔ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاسی حالات کا ادراک رکھتے ہیں اور معاشرے کے تضادات کو سمجھتے ہیں۔
انھیں فعال کرنے اور ان سے رہنمائی لینے کے بجائے انھیں کارنرکردیا گیا ہے، وہ بھی فرضی اور تصوراتی الزامات کے تحت حالانکہ وہ اب بھی کامریڈوں سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں تک ترقی پسند نظریات کو پہنچا رہے ہیں۔
آج کی سیاسی صورتحال ترقی پسند لوگوں کے لیے انتہائی سازگار ہے۔ دونوں بڑی دائیں بازو کی پارٹیاں اب عوام میں اتنی بدنام ہوگئی ہیں کہ سیاسی میدان تقریباً خالی ہے، عوام ان پارٹیوں سے دور ہوگئے ہیں، سیاست کا میدان عملاً خالی ہے۔ دو پارٹیوں کے جلسے جلوسوں میں جو نفری دکھائی دیتی ہے، وہ سب کرائے کی عوام ہے جو جلسوں جلوسوں کو رونق بخشتی رہی ہے اور بھرتی کے عوام کسی جماعت کا سرمایہ نہیں بلکہ بوجھ ہوتے ہیں۔ ایسے سیاسی کارکن معاشرے کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے کامریڈ، کسانوں کو منظم کرنے اور متحرک کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ آج کل بھارت میں کسانوں کا دھرنا جاری ہے۔ بھارت دنیا کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے، دنیا کا یہ دوسرا بڑا ملک کسانوں کی تحریک کو سنبھال نہیں پا رہا ہے اور کسان نہ صرف اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ بھارت کے دوسرے علاقوں سے ہزاروں کسان اس تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی کسان کس قدر منظم اور طاقتور ہیں۔ دوسری طرف بھارتی حکومت ہے جو اتنی بڑی تحریک کو تشدد کی طرف جانے نہیں دے رہی ہے، اس کی کامیاب جدوجہد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسان عموماً ایک ہی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک بڑے ملک میں ایک بڑی کسان تحریک کا دو تین ماہ سے جاری رہنا جس میں مردوں کے علاوہ خواتین اور بچے شامل ہوں اور سخت سردی میں سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں، ایک تاریخی کارنامے سے کم نہیں۔ اس تحریک کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بھارت کے دوسرے دبے ہوئے طبقات کو جو اپنے حقوق سے محروم ہیں اپنے حقوق کے حصول کی ترغیب ملے گی۔ ی
ہ ایک کارنامہ ہوگا جس کا کریڈٹ حالیہ کسان تحریک کو ملے گا۔ کیا پاکستانی کامریڈوں کو کسانوں کی طاقت کا اندازہ ہے؟ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں حیدربخش جتوئی اور پنجاب میں چوہدری فتح محمد نے کسانوں کو منظم کرنے کی بھرپور کوشش کی، ان کے بعد کسانوں کو منظم کرنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔
ہمارے عقل مند اور ذہین کامریڈ شاید کسانوں کو ملک گیر سطح پر منظم نہ کر سکیں، اگر کسانوں اور مزدوروں کا اتحاد بنایا جائے اور مشترکہ پروگرام ترتیب دیے جائیں تو ان کے قریب آنے اور پاکستانی سیاست میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام اس وقت ہو سکے گا جب کامریڈ اس کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اب کسانوں کے بچے بھی نہ صرف تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں، ان میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سندھ اور پنجاب میں کسانوں کو منظم کرنے کا کام شروع کیا جائے تو اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
کراچی میں مزدوروں میں بہت کام کیا گیا ہے اور سینئر ٹریڈ یونینسٹ جہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں، انھیں اور کسانوں کو قریب لانے کے لیے ایک مشترکہ کنونشن کا اہتمام کیا جائے تو یہ بائیں بازو کی سیاست میں نہ صرف ایک بڑی کامیابی ہوگی بلکہ وہ جمود بھی ٹوٹ جائے گا جو قیادت اور نظریہ سازوں کی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان میں سندھ اور پنجاب کے علاوہ خیبرپختونخوا میں ہشت نگر ابھی زندہ ہو سکتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کامریڈ ڈرائنگ روم میٹنگز اور اسسٹڈی سرکل سے باہر عوام میں آئیں۔