جب کوئی سیاسی طاقت کسی بھی حوالے سے عوام میں نامقبول اور بدنام ہوجاتی ہے تو فطری طور پر کوئی دوسری سیاسی طاقت اس کی جگہ لینے اور پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
پاکستانی سیاست میں قیام پاکستان کے بعد سے 2013 تک کسی نہ کسی حوالے سے اشرافیہ کا راج رہا اور اشرافیہ کا تعلق ہمیشہ بالادست طبقات سے رہا ہے، ویسے تو عوام کے استحصال کا دوسرا نام اشرافیہ ہے لیکن پچھلے دس برسوں کے دوران اشرافیہ نے کرپشن اورکھلی لوٹ مارکا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس نے اشرافیہ کو عوام میں اس قدر رسوا اور بدنام کر دیا ہے کہ عوام اس کا نام سننا پسند نہیں کرتے۔
اس صورتحال میں لازمی طور پر سیاسی جماعتیں ایک بہتر متبادل کے طور پر عوام میں آنے اور اپنا پروگرام متعارف کرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سابق حکومت کے بعد اشرافیہ نے اتحاد کے نام پر ایک جماعتی اتحاد متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن چونکہ عوام اب ان چالوں سے واقف ہوگئے ہیں لہٰذا یہ اتحادپیدا ہونے سے پہلے ہی ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ اب میدان سیاست میں ایک خلا ہے جسے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف پر کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حالات کی نا سازگاری اور ناتجربہ کاری کی وجہ عمران وہ خلا پر نہ کرسکے۔
نہ دائیں بازو میں اب کوئی ایسی جماعت نظر آتی ہے جو اس خلا کو پر کرے۔ اس موقع پر اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ پچھلے 72 سال سے اس ملک پر دایاں بازو ہی حکومت میں رہا ہے۔ اگرچہ بائیں بازو کی اپنی بھی کمزوریاں رہی ہیں لیکن بایاں بازو اپنی بے موقع سوچ اور بالادست طاقتوں کی سیاست کی وجہ اقتدار سے بہت دور رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بایاں بازو اول تو ابھی تک نظریاتی خلفشارکا شکار ہے دوسری طرف وہ ایک مرکز پر نہ آسکا ہے اور ٹکڑوں میں بٹا غیر فعال ہے لیکن اب بھی ان ٹکڑوں کو جوڑا جائے تو ایک مضبوط جماعت بن سکتی ہے۔
اس حوالے سے سب سے پہلے واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بورژوا سیاست ہو یا انقلابی سیاست عوام کے بغیرکسی کی گاڑی نہیں چل سکتی اور عوام تک رسائی کے لیے بہرحال ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں نام سے نہیں بلکہ اپنے منشور سے پہچانی جاتی ہیں اور بائیں بازو کا منشور جانا پہچانا ہے جس کا مرکز عوامی مسائل رہا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کی جائے تو سیاسی راستوں پر چلنا پڑتا ہے اور بورژوا سیاسی جماعتوں کا راستہ بلکہ واحد راستہ انتخابات ہیں۔
بائیں بازو کی نسبتاً قابل ذکر جماعت اس وقت عوامی ورکرز پارٹی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی پارلیمانی سیاست کو تسلیم کرتی ہے اور انتخابات میں حصہ بھی لیتی رہی ہے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمانی سیاست کے علاوہ کون سا راستہ ہے سیاست کا؟ اس میں ذرہ برابر تضاد نہیں کہ پارلیمانی سیاست کرپشن کا گھر ہے اور خاص طور پر پسماندہ ممالک میں تو پارلیمانی سیاست کرپشن کا گڑھ ہے لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہے اور ایک بہتر متبادل کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کو ترک کرنا ممکن ہے کسی بھی سیاسی سیٹ اپ میں تبدیلی کرنا ہو تو عوام ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے کیونکہ سیاسی زندگی میں عوام کی رضا کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔
اگر بایاں بازو پارلیمانی جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتا یا نیم دلی سے اس میں حصہ لیتا ہے تو بورژوا سیاست کے کھلاڑیوں یعنی ہماری اشرافیہ کی تو چاندی ہوجاتی ہے۔ اس پوری بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام سے رابطے کے لیے پارلیمانی جمہوریت کا دامن تھامنا ہی پڑے گا۔ ابتدا میں مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ پارلیمانی جمہوریت میں " مال" کی ضرورت پیش آتی ہے اور بدقسمتی سے بایاں بازو اس حوالے سے کنگال ہے لیکن عزم کے سامنے مال کی کوئی حیثیت نہیں رہتی عوام سے جب رابطہ ہوگا تو پارلیمانی جمہوریت کا کچا چٹھا کھول کے رکھا جاسکتا ہے۔
ہماری نام نہاد اپوزیشن سخت انتشار اور مایوسی کا شکار ہے اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ عوام اس کے ساتھ نہیں بلکہ سخت مخالف ہیں اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد اب صبر کے علاوہ اپوزیشن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ اپوزیشن کی اس ابتر صورتحال اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کا مشاہدہ کرنے کے بعد عوام کی نظریں کسی ایسے متبادل کی تلاش میں ہیں جو ایماندار ہو عوام کا درد رکھتا ہو اور عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ موجودہ حکومت اپنی کوششوں کے باوجود حالات خاص طور پر مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن اب اشرافیہ حقیقی معنوں میں مایوسی کا شکار ہے۔
بایاں بازو نہ الیکشن لڑنے کے مقابل ہے نہ کسی تحریک چلانے کے قابل ہے، اب جو کچھ ہو سکتا ہے وہ ہے عوام سے رابطے کا ذریعہ نکالنا اور ماضی کے ساتھیوں کو قریب لانا۔ ماضی میں بائیں بازو کے ساتھ ٹریڈ یونین ہوتی تھیں، طلبا کی تنظیمیں ہوتی تھیں، وکلا اور ڈاکٹروں کی تنظیمیں ہوتی تھیں۔ بائیں بازو یا عوامی ورکرز پارٹی اگر ان تنظیموں سے رابطہ کرکے انھیں فعال بنانے کی کوشش کرتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ ایک تنظیمی ڈھانچہ ترتیب پاسکتا ہے بائیں بازو کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایک متاثر کن مرکزی قیادت نہیں ہے اس کے لیے کوشش کی ضرورت ہے۔