Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Be Sukoon Dunya Ke Arbon Insan

Be Sukoon Dunya Ke Arbon Insan

دنیا میں سیکڑوں بیماریاں ہیں، ہزاروں ڈاکٹر ہیں لیکن بعض امراض ایسے ہیں کہ دواؤں سے ان کی تکلیف کم نہیں ہوتی۔ انسان بڑا بااختیار ہے لیکن اتنا ہی بے اختیار بھی ہے، ہمارا دور اس اعتبار سے بہت ترقی یافتہ دور کہلا سکتا ہے کہ اس دور میں تقریباً ہر بیماری کا علاج دریافت ہو چکا ہے سوائے کینسر کے۔

کینسر ایک ایسا مرض ہے جس کا مریض ہر وقت موت کے منہ میں ہوتا ہے۔ برسوں عشروں بلکہ شاید صدیوں سے اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہنوز اس میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن میڈیکل سائنس جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے، اس کے پیش نظر امید ہے کہ آج نہیں تو کل اس کا علاج بھی ڈھونڈ لیا جائے گا۔

کورونا ایک پرانی بیماری نئے روپ میں ظاہر ہوئی ہے، اس کی تباہ کاریوں کا عالم یہ ہے کہ تقریبا آٹھ لاکھ انسان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب پہلی بار یہ خوش خبری ملی ہے کہ کورونا کی ویکسین روس نے تیار کرلی ہے اور روس کے صدر نے اپنی بیٹی کو یہ ویکسین لگائی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی خوش خبری ہے، روسی صدر پیوٹن کی بیٹی اس ویکسین سے صحت مند ہوجاتی ہے تو دنیا بھر کے کورونا کے مریضوں کے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔

کورونا ایک ایسی خطرناک بیماری ہے کہ انسان اس سے دہشت زدہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس بیماری کا اب تک کوئی علاج نہ تھا اب روس کے ماہرین نے کورونا کی ویکسین تیار کرکے دنیا پر بہت بڑا احسان کیا ہے مگر اب تک ہاں اور ناں کے بیچ میں اٹکی ہوئی ہے کیونکہ ویکسین انڈر ٹرائل ہے ابھی علاج میں کامیابی کی اطلاع نہیں۔ لیکن امید کی جانی چاہیے کہ پیوٹن کی بیٹی اس علاج سے صحت یاب ہو جائے گی۔

رات کے اندھیرے میں سوچتا رہا دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ کیسی کیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور علاج سے محروم ہیں۔ ان کا کیا ہوگا، زندگی کتنی کٹھن ہے اندازہ ہوا۔ ہم ایک عرصے تک مزدوروں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں نہیں معلوم تھا کہ مزدور کی لیڈرشپ کتنی منافع بخش ہے۔ خیر اس بات کو جانے دیں کہ بے موقع ہے لیکن انسان غلط الزامات پر چراغ پا ہو جاتا ہے۔

یہ تکلیف لکھنے کے دوران شروع ہوتی ہے اور بڑی شدت سے پھوٹ پڑی ہے، میں نے سوچا دنیا میں جانے کتنے ہزار کتنے لاکھ لوگ ہوں گے جو اس قسم کی تکلیف میں مبتلا ہوں گے۔ اور تڑپ رہے ہوں گے۔ ہمارے ملک میں علاج کا یہ حال ہے کہ بے علاج لوگ شاید کم تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کیونکہ بعض دوائیں فائدہ کم نقصان زیادہ کرتی ہیں۔

انسان کتنا بے اختیار ہے؟ کس قدر بے بس انسان چاند پر ہو آیا انسان دس قدم چلنے سے معذور اس کے باوجود انسان مریخ پر جانے کی تیاری میں لگا ہوا ہے، انسان لاچار اتنا کہ اس کی بے بسی پر رحم آتا ہے، انسان با اختیار اتنا کہ ستاروں کی چال بدل دے، زندگی اتنی طویل کہ انسان موت کی دعائیں مانگنے لگے انسان۔۔۔۔ زندگی اتنی مختصر اور غیر متوقع کہ انسان تصویر حیرت بن جائے۔ بیماریاں اتنی کہ گننا مشکل بیماریاں اتنی خطرناک کہ انسان مایوس ہو جائے، انسان اتنا ذہین کہ خطرناک سے خطرناک بیماریوں کو بس میں کرلے۔

نیند آنکھوں سے دور کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر خیال آیا ایسے وقت قلم کام آتا ہے۔ دماغ کو تکلیف کی طرف سے ہٹانے کا بہترین طریقہ علاج جاری ہے، دو بڑے ماہر ڈاکٹر علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر جو جناح اسپتال کراچی میں پیٹ کی بیماریوں کے ریسرچر ہیں اور اپنے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں کافی دنوں سے علاج کر رہے ہیں۔ لیکن فائدہ کچھ خاص نہیں، دوا کھائے جا رہے ہیں۔ کوشش کرنا انسان کا کام ہے فائدہ نقصان دنیا کے مالک کے ہاتھ میں۔ ویسے تو بیماریوں کے حوالے سے بہت سینسیٹیو ہوں۔ میری اپنی ڈائیگنوسس ہے، بیماری کہیں پیٹ کے اندر ہے، دوائیں تو بہت کھائیں، اب پیٹ کا کیا علاج کہ اس پیٹ کے السر کی تکلیف سے خدا بچائے۔

دنیا تکلیف اور آرام سے بھری ہوئی ہے۔ انسان بالکل بے بس ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہر بیمار کو علاج مل رہا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ غریب طبقات علاج سے ہمیشہ سے محروم ہیں، وہ معمولی سردرد اور بخار کا علاج نہیں کراسکتے، اس کے مقابلے میں ایلیٹ کلاس ہے جو سر درد کی دوا اور علاج کے لیے لندن اور امریکا جاتی ہے، یہ تفریق اس قدر عذاب ناک ہے کہ اہل ضمیر اس سے دل برداشتہ بھی ہو جاتے ہیں اور مشتعل بھی۔ دنیا کی اس بے بنیاد اور لاجک لیس طرز زندگی نے اہل دل اور اہل خرد کو بے تاب کرکے رکھا ہے۔

کیا اس ظلم کو ختم ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب22کروڑ غریب انسانوں کی آنکھوں سے ملتا ہے، یہ نظام زر جس میں 90فیصد سے زیادہ انسان زندگی بھر روٹی کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور مٹھی بھر ایلیٹ دنیا ہی میں جنت کے مزے لوٹتی ہے۔ کیا اس ظلم اور ناانصافی کو ختم ہونا چاہیے؟

اہل زر کو ہمیشہ یہ ڈر رہا ہے کہ 98 فیصد بھوکے عوام اگر متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہوں تو دو فیصد ایلیٹ ہوا میں اڑ جائے گی، اس خوف نے انھیں اپنی اور اپنی دولت کے تحفظ کے لیے محافظوں کی ایک فوج رکھ چھوڑی ہے اور اس حوالے سے یہ ایک دلچسپ نظارہ ہے کہ بھوکے کو روٹی لینے سے بھوکا ہی روکتا ہے۔

دنیا کے اربوں انسان دو وقت کی روٹی سے محتاج ہوں اور 2فیصد سرمایہ دار ایلیٹ دنیا کے مزے لوٹ رہی ہے، ساری دنیا کورونا سے دہشت زدہ ہے اور دو فیصد ایلیٹ اس حال میں بھی عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئی ہے، اس ایلیٹ کو دنیا کے تمام انسان کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ میرا یہ سوال دنیا کے ان 98 فیصد عوام سے ہے جو مجسم صبر بنے ہوئے ہیں۔