دنیا کی سیاست اگر اصولوں اور عالمی مفادات پر استوار ہوتی تو نہ دنیا اس مفاد پرستی کے بھنور میں پھنسی رہتی نہ عوام کا عالمی سیاست پر سے اعتبار متزلزل ہوتا۔ ایسے تنازعات جو اپنی اصل میں دو اور دو چار جیسے آسان حیثیت کے مالک ہوتے ہیں، انھیں بھی مفادات کی سیاست میں اس قدر ملوث کیا جاتا ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے اور الجھتے چلے جاتے ہیں۔
کشمیر کے مسئلے کو لے لیں کشمیر کا تنازعہ دنیا کے اہم تنازعات میں سے ایک ہے یہ ایک سیدھا سادہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک قرارداد میں اس تنازعے کا ایک منصفانہ حل پیش کیا تھا کہ اس مسئلے کوکشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے اور حل کا ایک جمہوری طریقہ بھی بتادیا تھا، اگر اقوام متحدہ کے ممبر ممالک اصولی اور ایماندارانہ سیاست کے حامی ہوتے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں مصلحت پسندی کو جگہ نہ دیتے تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوچکا ہوتا۔
لیکن اس آسان اور سیدھے سادھے مسئلے کو مفادات کی بھٹی میں ڈال دیا گیا یوں 72 منٹ میں حل ہونے والا یہ مسئلہ 72 سال سے مفادات کی سولی پر لٹکا ہوا ہے اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی لیکن اس مسئلے کو کشمیریوں کے خون میں اس طرح ڈبو دیا گیا کہ لاکھوں کشمیری اب تک اقوام متحدہ کے انصاف کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ خون اس لیے بہایا جا رہا ہے کہ اس مسئلے کو انصاف کے اصول کی روشنی میں حل کرنے کے بجائے ایک طاقتور حکومت کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بھارت اور پاکستان اس مسئلے کے دو اہم فریق ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پاکستان بھارت جتنا طاقتور ملک ہوتا تو اول تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا اگر ہوتا تو بھارت اس مسئلے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا۔ اقوام متحدہ ایک سیاسی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انصاف کرنے والا ادارہ بھی ہے لیکن ممبر ملکوں کے مفادات اس مسئلے کو انصاف کے اصولوں کے ساتھ حل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو قراردادیں منظورکی تھیں، ان میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ اس مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے، رائے شماری نہ کوئی پیچیدہ عمل تھی نہ اس کے لیے لمبا عرصہ درکار تھا۔ بس بات صرف اتنی سی تھی کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اقوام متحدہ کے ارکان کے مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ وہ حق اور انصاف کا ساتھ نہ دیں سو یہ مسئلہ جو 72 گھنٹوں میں حل ہوسکتا تھا۔ 72 سال سے اقوام متحدہ کی ٹیبل پر پڑا سڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی مفاد پرستی اور اصولوں کے قتل کی وجہ سے آج 72 سال گزرنے کے باوجود کشمیری عوام اپنے جمہوری حق سے محروم ہیں۔
بھارت نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے بجائے اب اسے ایک نئے گرداب میں ڈبو دیا ہے، یعنی اس کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے بھارت کا ایک آئینی حصہ بنا دیا ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔
ادھر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کو اب ناممکن بتایا ہے۔ اس مسئلے نے ایک اور ٹرن یہ لیا ہے کہ حکومت پاکستان نے دنیا بھر میں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا ایک مربوط پروگرام بنایا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ دونوں ملک ایٹمی ملک ہیں ایٹمی ملکوں کے درمیان کشیدگی کا یہ گراف خطرے کی گھنٹی بن گیا ہے۔
بھارت کے دانشور اور تعلیم یافتہ لوگ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی پالیسی کے سخت خلاف ہوگئے ہیں بھارت کے ایک سابق وزیر چدم برم کو پاکستانی موقف کی حمایت پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو اب دو ہفتے ہو رہے ہیں مقبوضہ کشمیر ایک جیل بن گیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں صورتحال مخدوش سے مخدوش تر ہوتی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سیکولر ملک ہونے کا دعویدار بھارت اب مذہبی انتہا پسندی کی انتہا پر ہے دنیا کا روشن خیال طبقہ بھارت کے سیکولر کردار سے پہلے ہی مایوس تھا۔ اب ہندوتوا کے پروگرام نے پر امید لوگوں کو بھی نا امید کردیا ہے وہ لوگ جو دونوں پسماندہ ملکوں کے بہتر مستقبل کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک بات جو سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ ایسے ملک پر فوج کے ذریعے قابض رہنا نہ صرف جمہوریت کی نفی ہے بلکہ قابض ملک کے لیے صرف مشکلات میں اضافے کا سبب ہی بن سکتا ہے۔ بھارت کا شمار بھی پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ایسے ملک کا حکمران طبقہ اگر پڑوسی ملکوں سے مستقل عداوت اور کشیدگی کی فضا کو ترجیح دے رہا ہو تو عوام سے اس کا اخلاص ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ایک متعصب اور جنگ پسند انسان ہیں۔ گجرات کے قتل عام میں ان کا کردار اس قدر قابل شرم ہے کہ عوام انھیں سفاک قاتل کا نام دیتے ہیں۔ ایسے مذہبی جنونی کی موجودگی میں برصغیر میں کسی مثبت تبدیلی کی امید رکھنا بے وقوفی کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ بھارت جیسے پسماندہ ترین ملک کو جنگی سیاست سے دور رہنا چاہیے لیکن بھارت اور خطے کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ برصغیر امن کے بجائے ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔