Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bharat Mein Fasadat

Bharat Mein Fasadat

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت میں بے شمار زبانیں بولنے والے اور قومیتوں میں بٹے لوگ ہیں۔ تقسیم سے پہلے بھی تقریباً یہی صورتحال تھی، لیکن اس حقیقت کی کیا تشریح کریں کہ تقسیم سے پہلے بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کا وہ عالم نہ تھا جو تقسیم کے بعد ہوا۔

حالانکہ تقسیم سے پہلے جو لوگ بھارت میں رہتے تھے وہی لوگ تقسیم کے بعد بھی رہتے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ یہ آبادی دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ بن گئے، ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل ہوگئے۔ اس نئے تناظرکا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ تقسیم کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان میں وہ فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے، جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہزاروں انسان انتہائی بے دردی سے کاٹ دیے گئے لاکھوں انسان مہاجرت کے آزار میں مبتلا ہوگئے۔

بھارتی سرکار نے شہریت کا ایک متنازعہ بل پیش کیا ہے، جس میں بنیادی طور پر مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، اس قسم کی شرپسندانہ حرکتیں ہمارے نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد عام ہوگئی ہیں ویسے تو اس بل کے خلاف ہفتوں سے پرتشدد احتجاج جاری ہے لیکن 21 دسمبر کو اس کی شدت کا عالم یہ رہا کہ دہلی، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور کئی دوسری بھارتی ریاستوں میں شدید اور پرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں پولیس فائرنگ سے 6 افراد ہلاک ہوئے جن میں اترپردیش کے شہر بجنور میں 2 ہلاکتیں ہوئیں۔

مظاہرے تقریباً بھارت کے تمام بڑے شہروں میں ہو رہے ہیں جن کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ مظاہروں میں ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ بھارت کی معروف اہل قلم ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ بھارت کو کشمیر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم یہاں ارون دھتی رائے اور ان جیسے اہل قلم دوستوں سے کہیں گے کہ بھارت کو کشمیر بنانے کی باتیں کرنے والے اگر بھارتی حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے رواج کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں تو یہ زیادہ مثبت بات ہوگی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کی تیاری کر رہے ہیں، کیا نہرو کے سیکولر بھارت کی جگہ ایک ہندو ریاست بنانے کی کوششوں کے خلاف ارون دھتی رائے اور ان کے نظریاتی ساتھیوں نے کوئی قلمی تحریک چلائی؟ ارون دھتی رائے کو یہ علم تو ہوگا کہ بھارت میں شہریت بل کے خلاف جو پرتشدد تحریک چل رہی ہے، اس میں بڑی تعداد میں ہندو اور دوسری کمیونٹیز کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ دھتی رائے اس کی کیا توجیہ کریں گی؟ ارون اور ان جیسے قلم کار بلاشبہ ترقی پسند فکر کے حامل لوگ ہیں جو پردے کے پیچھے دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتیں کہ مودی کی نظریاتی رہبری آر ایس ایس کر رہی ہے؟

آر ایس ایس بھارت کی کٹر انتہا پسند ہندو تنظیم ہے۔ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جو 1947 کی یاد دلاتا ہے۔ کیا ارون دھتی نے اس قتل عام کے حوالے سے نریندر مودی کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی؟ اگر کوشش کی تھی تو نریندر مودی دوسری بار لگاتار بھارت کا وزیر اعظم کیسے منتخب ہوا؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر ارون دھتی اور ان کے ساتھیوں کو نہ صرف سنجیدگی سے سوچنے بلکہ ایک منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ذہنوں سے وہ سارے جالے جو رجعت پسندوں نے لگائے تھے اب آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا ہے ان حقائق کی روشنی میں ایک نئے سماجی نظام کی ضرورت ہے جو رنگ، نسل، ذات پات اور فرسودہ عقائد سے بالاتر اور حقائق سے نزدیک تر ہو۔

بھارت میں ہونے والے فسادات کسی حوالے سے بھی قابل حمایت نہیں ہیں نہ انھیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کو ایک اورکشمیر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اہل قلم کو سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم کی روشنی میں ادب اور شاعری کو ڈھالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو حیوان بننے سے روکے۔ مودی حکومت نے جو شہریت بل لایا ہے کیا اس میں مسلمانوں کو دوسرے بھارتی شہریوں جیسے حقوق دیے ہیں۔ اگر دیے ہیں تو مسلمانوں میں اس قدر اضطراب کیوں ہے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو برادری کی احتجاج میں شرکت کی وجوہات کیا ہیں؟

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی عوام کے ذہنوں کو آر ایس ایس جیسی تنظیموں نے اس قدر زہر آلود کر دیا ہے کہ وہ گجرات کے بدنام زمانہ قاتل کو ایک نہیں لگاتار دو بار وزیر اعظم منتخب کیا۔ یہ واردات ارون دھتی رائے اور ان کے ساتھیوں کے لیے باعث شرم ہی کہلائیں گی۔ گجرات کے قتل عام کی تصویر بھارت کے ایک ہندو نوجوان شاعر نے اس طرح کھینچی کہ سامعین ہچکیاں لے کر رونے لگے۔

ایسے بدنام زمانہ مودی کو دوسری بار بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہونا، بھارتی حقیقت پسندوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ارون دھتی کا یہ کہنا کہ حالیہ احتجاج بھارت کو کشمیر بنانے کی کوشش ہے افسوس ناک اور قابل مذمت ہے کیونکہ بھارت میں چلنے والی شہریت بل کی تحریک کوئی مذہبی تحریک نہیں ہے بلکہ شہری حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف شہری اور شہریت کے حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف تحریک ہے اگر یہ تحریک مذہبی ہوتی تو ہندو کمیونٹی اس کا حصہ کیسے بن سکتی ہے؟

مودی بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانا چاہتا ہے دنیا کے عوام مذہبی ریاستوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ایسے میں بھارت جیسا دنیا کا آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک اگر مذہبی ریاست بن جاتا ہے تو اس کے نفع نقصان کا اندازہ ارون دھتی جیسے قلم کاروں کو ہونا چاہیے مذہبی انتہا پسندی دنیا کے عوام کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس سے دنیا کے عوام کو نجات دلانے میں اہل قلم کو اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ 1947 میں تقسیم کے گھاؤ کو ختم کرنے میں ادیبوں، شاعروں نے جو مثبت کردار ادا کیا، کیا آج کا ادیب وہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت میں ہونے والے فسادات قابل افسوس ہیں لیکن ان کی اندھا دھند مخالفت کی بجائے ان کے اسباب کا پتا چلا کہ انھیں ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔