دنیا کی تاریخ میں نازی ازم ایک "بدترین دور" کی حیثیت سے جانا جاتا رہے گا۔ ہٹلر نے جرمنی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ دشمن ملک بھی نہ کر سکے۔ آج جرمنی نازی ازم کی وجہ سے تاریخ میں بدنام ہے۔ جرمنی میں دیوار برلن اسی سائیکی کا شاہکار ہے۔ ہٹلرکا نام فاشزم تو تاریخ کا حصہ بن گیا لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ہٹلر کے پیروکار آج بھارت جیسے ایشیائی ملک میں فاشزم کا ایک نیا برانڈ تشکیل دے رہے ہیں۔
آر ایس ایس بھارت میں ہٹلرکی یادگار بنی ہوئی ہے۔ بی جے پی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے بھارت میں ہندو توا کو متعارف کرا رہی ہے۔ اسی ذہنیت نے بھارت میں سیاسی سطح پر ایک ہلچل مچا دی ہے، کشمیر کو فاشزم کا مرکز بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کوششوں کا مرکز کشمیر بنا ہوا ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے بھارت نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا دیا ہے۔ یہ ایک ایسی سازش ہے جو خود بھارت کی دنیا میں بد نامی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارتی عوام اور بھارت کے دانشور بھارتی حکومت کے ان اقدامات کو خاموشی سے دیکھتے رہیں گے یا اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
کشمیر میں ایک ماہ سے کرفیو نافذ ہے اورکشمیری عوام محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کرفیو زدہ ریاست میں عوام پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت ساری دنیا میں بد نام ہوکر رہ گیا ہے اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف کشمیریوں کی نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
بی جے پی کی نظریاتی رہنمائی آر ایس ایس کر رہی ہے اور آر ایس ایس 72 سال سے بھارت کے سیکولرکردار کو تباہ کر رہی ہے۔ بلاشبہ آر ایس ایس کشمیرکی شناخت تبدیل کرنے کی منصوبہ بند اور منظم کوششیں کر رہی ہے، لیکن ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کشمیری عوام کی بھارت سے دوری اور نفرتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر صرف زمین کے ایک خطے کا نام نہیں بلکہ ایک کروڑ سے زیادہ عوام کا ایک ملک ہے جسے 35A اور 370 کی منسوخی کے ذریعے بھارت کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ملک قانونی آرٹیکلز کے ذریعے نہیں بنتے بلکہ عوام کی خواہش کے ذریعے بنتے ہیں، اسی طرح عوام کی حمایت سے چلتے ہیں 9-8 لاکھ فوج پچھلے 72 سالوں سے کشمیری عوام کے دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کوشش میں اسے کامیابی نہیں مل سکی۔
بی جے پی کا شمار مذہبی انتہا پسند جماعتوں میں ہوتا ہے۔ بھارت میں مختلف مذاہب کے عوام رہتے ہیں جن میں 22 کروڑ مسلمان بھی شامل ہیں یہ کسی بھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے۔ اس اقلیت کی اکثریت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کی مسلم اقلیت تعداد کے حوالے سے پاکستان کی آبادی کے برابر ہے۔
بی جے پی بھارت میں 22 کروڑ مسلمانوں کو اپنے نظریے کے لیے بھی ایک خطرہ سمجھتی ہے خاص طور پر مسلمانوں نے بھارت پر اپنے ایک ہزار سالہ دور میں جو تاریخی یادگاریں قدم قدم پر چھوڑی ہیں مثلاً لال قلعہ، دلی کی مشہور جامع مسجد، آگرہ تاج کا محل وغیرہ یہ یادگاریں بی جے پی کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہیں بلکہ ان بے شمار مسلم یادگاروں نے بی جے پی کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا اورکشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھانا اسی احساس کمتری کا ردعمل ہے۔
ایک تو مسلمان 22 کروڑ کی تعداد میں بذات خود بی جے پی کے لیے ناقابل برداشت ہیں، دوسرے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت نے بی جے پی کے لیے ایسا نظریاتی چیلنج بن گیا ہے، جس سے بی جے پی ہر سطح پر نمٹنا چاہتی ہے۔ کشمیر ایک تاریخی اور خوبصورت علاقہ ہے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت نے بی جے پی کو شدید احساس کمتری کے علاوہ مستقبل کے امکانات نے پریشان کر رکھا ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ بی جے پی ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتی ہے کہ کشمیری مسلمان بھارت کے مستقبل کے لیے مشکلات نہ کھڑی کردیں۔ بھارتی حکمرانوں نے مجبوری میں کشمیر کو آرٹیکلز 35A اور 370 خصوصی حیثیت دے رکھی تھی کشمیر کی یہ خصوصی حیثیت بی جے پی کی قیادت کی آنکھوں میں مسلسل کھٹک رہی تھی۔
انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد پہلی فرصت میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بی جے پی کی اسی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ بی جے پی کشمیرکی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے آیندہ کے لیے کشمیرکے خطرے سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن بھارت سے کشمیریوں کی نفرت میں ان شقوں کے خاتمے کی وجہ اور اضافہ ہوگیا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات کی وجہ کشمیریوں کی بھارت سے نفرت میں جو اضافہ ہوگیا ہے بی جے پی اس سے سخت پریشان ہے کشمیریوں کے خلاف اقدامات اور ایک ماہ کے لگاتارکرفیو نے ساری دنیا میں بھارت کا منہ کالا کردیا ہے۔ اگر بھارت میں کوئی ترقی پسند جماعت برسر اقتدار ہوتی تو وہ کشمیریوں کو مزید مراعات اور تحفظ دے کر کشمیری عوام کے دل جیتنے اور بھارت کی سیکولر شناخت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی لیکن بی جے پی کا احساس کمتری ان مثبت اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔