مجھے کالم لکھتے ہوئے اب 45 سال ہو رہے ہیں، ملک کے بڑے اخباروں میں بھی لکھا، مختلف رسالوں میں بھی لکھا اور ایک اردو ماہنامہ "فردا" کے نام سے بغیر کسی کی سرپرستی کے اپنی کاوش سے نکالتا رہا۔ آج میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ تم کیوں لکھتے ہو؟
ذہن نے جواب دیا صرف اور صرف عوام میں بیداری پیدا کرنے، طبقاتی شعور پیدا کرنے کے لیے، انھیں یہ بتانے کے لیے کہ تم مٹی کے مادھو نہیں ہو، تم اس ملک کے ایک معزز شہری ہو، تمہیں اس طبقاتی معاشرے میں طبقاتی نظام کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ جواب آیا کیا تم اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟ اس سوال کا جواب بڑا مایوس کن تھا۔ نہ میرے 45 سال کے کالموں سے مردہ دلوں میں کوئی ہلچل پیدا ہوئی نہ افسانوں کے 9 مجموعوں سے کچھ فرق پڑا، نہ کالموں کے تین مجموعوں نے قارئین کا کچھ بگاڑا۔
ملک میں ہزاروں بزنس چل رہے ہیں، ہزاروں بزنس مین اربوں روپے کما رہے ہیں۔ میڈیا میں کسی زمانے میں مقصدیت بھی تھی اور نظریاتی تنوع بھی تھا لیکن اب میڈیا ایک خالص کاروباری شعبہ بن کر رہ گیا ہے۔ بزنس، بزنس، بزنس اورکچھ نہیں۔ قاری موٹی موٹی سرخیاں دیکھتا ہے اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔
دوسرے دن اخبارات کا ملبہ ردی فروشوں کے پاس چلا جاتا ہے اللہ اللہ خیر صلہ۔ لوگوں کے پاس وقت نہیں، وقت ایک کے دس کرنے میں گزر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست دانوں کا کام عوام میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے، ہمارا سیاستدان ان فالتوکاموں میں وقت خراب کرنا نہیں چاہتا۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا باسی ہے، اس کی نظر مال پر ہوتی ہے، مال خواہ حلال ہو یا حرام، اس سے سرمایہ کار سیاست کارکوکوئی دلچسپی نہیں، اسے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنا ہی اس کی سیاست، اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ آج ہمارے اختیارات ہمارا میڈیا بڑے بڑے کرپٹ سیاستدانوں کی اربوں روپے کی کرپشن کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔
گرفتاریاں، جیلیں، ضمانتیں، ضمانتوں میں تسلسل کے ساتھ توسیع، کرپشن کے بادشاہوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے ہر بیماری کے اسپیشلسٹوں کے پرے کے پرے آتے ہیں، حاضری لگاتے ہیں، لاکھوں روپوں کی فیس کے بل دیتے ہیں اور ایک شرمندہ سی مسکراہٹ کے ساتھ چیکوں کا بوجھ اٹھائے چلے جاتے ہیں۔ قانون اور انصاف اس نظام کی دھول اپنے چہروں سے صاف کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا آدرش وادی ملک جہاں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
میرے پیارے عوام تم کو اس ملک میں زندگی گزارتے ہوئے 72 سال ہو رہے ہیں، تمہاری تیسری نسل اس ملک کی اشرافیہ کے جوتے اٹھاتے اٹھاتے جوان ہو رہی ہے، تم نے تو اشرافیہ کے جوتے اٹھاتے اٹھاتے زندگی گزار دی۔ اس سے بڑا المیہ اور کچھ ہوسکتا ہے کہ اس ملک کے مالک اشرافیہ کے جوتوں لاتوں میں پرورش پا رہے ہیں اور عوام کے غلام آقا بنے ٹھاٹھ سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ کتنا بڑا انیائے ہے کہ ملک کے مالک غلام بنے ہوئے ہیں اور غلام آقا بنے بیٹھے ہیں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ نئی نسل کب ہوش میں آئے گی اور اپنا حق حاصل کرے گی، یاد رکھو تم غلام نہیں اس ملک کے آقا ہو، نئی نسلیں اب زیادہ دیر اداس نسلیں نہیں بنی رہے گی تم ان ڈکلیئرڈ قذاقوں کی گاڑیوں کو گلابوں سے سجاتے ہو اور قذاقوں کے حق میں زندہ باد کے نعرے حلق پھاڑ پھاڑ کے لگاتے ہو وہ بھی چند ٹکوں کے لیے یا چھوٹی موٹی مراعات کے لیے تم اندھے ہو، گونگے ہو، بہرے ہو، غلامی کا ایک پل ایک صدی کے برابر ہوتا ہے تم نے 72سال اشرافیہ کی غلامی میں گزار دیے۔ کیا اسے ہم بے شرمی کہیں یا اپنے طبقے سے غداری اس کا فیصلہ تم کو کرنا ہے۔
اس ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں یہ مزدور نہیں بلکہ مالک ہیں کیونکہ سرمایہ تو ہر جائز و ناجائز طریقے سے کمالیا جاتا ہے محنت خون پسینے سے پیدا ہوتی ہے۔ سرمایہ ایک گھٹیا چیز ہے جو چوروں ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہتا ہے، محنت ایک عظیم اور پوتر چیز ہے جو خون پسینے میں پل کر جوان ہوتی ہے۔
اس کی مہانتا کو مٹی میں ملانے والے آج تمہارے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ اب غلامی کے اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔ دشمن کو دشمن کے ہتھیار سے ختم کرسکتے ہو، جمہوریت کے ان داتاؤں نے ووٹ کی شکل میں تمہارے ہاتھوں میں ایک بڑی طاقت دی ہے، اس طاقت کو اشرافیہ چوری کرتی ہے خریدتی ہے یہ سارا کھیل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک تم اپنی طاقت کو نہیں پہچانو گے جس دن تم کو اپنی طاقت کا احساس ہوجائے گا اس دن اشرافیہ چوہے بن جائیں گے۔ تم اکیلے نہیں ہو تمہارے ساتھ تمہارا طبقاتی بھائی کسان ہے جب ساڑھے چھ کروڑ مزدور اور دیہی آبادی کا 60 فیصد کسان تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائے گا تو تمہاری طاقت پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دے گی۔