انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں عقل مع سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، اچھے برے کی تمیز ہے، نقصان فائدے کا احساس ہے، اتنی ساری خوبیوں کے بعد بھی اگر وہ حیوان ہی رہنا چاہتا ہے تو پھر اسے اپنی پیشانی سے اشرف المخلوقات کا ٹھپہ ہٹا کر حیوان ناطق کا بورڈ لگا لینا چاہیے۔
ایک ہزار سال تک بھائیوں کی طرح رہنے والے اگر درندے بن جائیں تو اس سے زیادہ ذلالت کی بات کیا ہو سکتی ہے۔ انسان جس نے چاند کا سفرکیا، انسان جو مریخ پر جانے کی تیاری کررہا ہے، انسان جس نے انسانی بھلائی کے لیے انسانوں کو سہولتیں پہنچانے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے، وہ سربستہ راز جو ہزاروں سال سے راز بنے ہوئے تھے وہ راز جوکرہ ارض کے انسان کی ذہنی تسکین کے لیے ضروری ہیں، انسان نے وہ راز بھی دریافت کر لیا جس کے افشا سے دنیا میں بھونچال آسکتا ہے، قتل و غارت گری ہو سکتی ہے لیکن ایسے بہت سارے راز ہیں جن کا ظاہر ہونا انسان کو حیوان بنا سکتا ہے لیکن ایسے رازوں سے انسانی جانوں کے زیاں کا خطرہ ہوتا ہے لیکن انسان کی جبلت میں نیکی اور بدی دونوں شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان جانور نہیں بنا، ابھی تک اس میں بھلائی کا عنصر موجود ہے۔
لیکن وہ انسان جن میں بھلائی کے عنصر سے برائی کا عنصر زیادہ قوی ہوتا ہے، وہ انسانیت کی حد کراس کرلیتے ہیں۔ بھارت میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ تعصب پسند ہندو، مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں، اب تک 50 کے لگ بھگ مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے، سیکڑوں زخمی ہیں۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ تعصب کی وجہ سے۔ ہندو مسلمان دو الگ دھرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دین دھرم انسانوں کے درمیان حمیت اور بھائی چارہ چاہتے ہیں۔ یہ بات غلط نہیں ہے لیکن ان میں ایک چھوٹی سی اقلیت ایسی ہے جو دین دھرم کے نام پر بے دردی سے انسانوں کو قتل کردیتی ہے۔
50 مسلمان، انسان بھی تھے لیکن انھیں تعصب نے مار دیا۔ عام آدمی متعصب نہیں ہوتا بلکہ کچھ انسان نما شیطان ہوتے ہیں جو اپنے جیسے انسانوں کو جانوروں کی طرح قتل کر دیتے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت دلی میں یہی ہوا۔ انسانوں نے حیوان بن کر انسانوں کو قتل کردیا، قتل کرنے والے بھی یقیناً انسان ہی تھے لیکن انھیں ان انسانوں نے مشتعل کردیا جو فطرتاً حیوان تھے۔ انسان کو جب حیوان بنا دیا جاتا ہے تو وہی ہوتا ہے جو دلی میں ہوا ہے۔
اس قسم کے انسان نما حیوانوں نے بہت خون بہایا ہے۔ 1947 میں کہا جاتا ہے ہندو مسلمان کی تفریق کے حوالے سے 22 لاکھ افراد کو قتل کر دیاگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی دشمنی انسان سے کیسے کیسے جرم کرا دیتی ہے۔ بھارت میں اب بھی 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ یہ کسی ملک سے آئے ہوئے مسلمان نہیں بلکہ نسل در نسل بھارت ہی میں رہے ہیں اور پرامن رہے ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کے ساتھ بھائی بندوں کی طرح رہے ہیں، لیکن ملک کو جب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تو انسان حیوان بن گیا۔
آج بھارت میں رہنے والے مسلمان ہندو اکثریت سے خوفزدہ ہیں۔ انسان، انسان سے اس وقت خوفزدہ ہوجاتا ہے جب اس کو حیوان بنتا دیکھتا ہے۔ بھارت میں اب بھی ایسے مہان ہندو ہیں جو انسان ہیں اور مذہبی تقسیم کو قتل و غارت گری کے لیے استعمال نہیں کرتے لیکن وہ مذہبی حیوانوں سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن پھر بھی وہ انسانوں کی حیوانیت کو حیوانیت ہی مانتے ہیں۔ میں ایسے کئی ہندوؤں کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری زندگی مذہبی رواداری میں گزار دی، مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان فرشتہ نما انسانوں کو اتنا یاد نہیں کیا جاتا جتنا انسان نما سیاسی حیوانوں کو یاد کیا جاتا ہے۔
بھارتی بحریہ کے سابق چیف آف اسٹاف یا سربراہ کا نام رام داس تھا یعنی بھگوان کا خادم۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں لگا رہتا تھا۔ ایک بار ہم ایک دوست ڈاکٹر افتخار کے گھر ڈیفنس میں بیٹھے پاک ہند میں دوستی کرانے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک رام داس نے کہا، بیدری بھائی! آج کل میں بڑی مشکل میں ہوں، میری بیٹی جو آکسفورڈ میں زیر تعلیم ہے ایک مسلمان ساتھی سے محبت کرتی ہے اور دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔
میں بھارت جیسے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کی بحریہ کا سربراہ ہوں، میں پریشان ہوں کہ ان کی شادی فرقہ وارانہ فسادات کا حوالہ نہ بن جائے۔ جب میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا تو میں نے وزیر اعظم سے کہہ دیا۔ وزیر اعظم نے کہا، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ دو نوجوان اور تعلیم یافتہ شہری شادی کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے اس میں حکومت کا کیا دخل۔ رام داس بھارتی بحریہ کا سربراہ تھا اور ایک عظیم انسان بھی۔ خدا کرے دلی کے 50 بے گناہوں کا خون حیوانوں میں انسانیت کا جذبہ پیدا کردے۔ ہماری دعا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو اﷲ مذہبی حیوانوں کے شر سے بچائے۔